Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔اچھی اور بری رسمیں

										
																									
								

Ayat No : 10-13

: العَنکبوت

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ ۱۰وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ ۱۱وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُمْ بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُمْ مِنْ شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ۱۲وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ۱۳

Translation

اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے اس کے بعد جب راسِ خدا میں کوئی تکلیف ہوئی تو لوگوں کے فتنہ کو عذابِ خدا جیسا قرار دے دیا حالانکہ آپ کے پروردگار کی طرف سے کوئی مدد آجاتی تو فورا کہہ دیتے کہ ہم تو آپ ہی کے ساتھ تھے تو کیا خدا ان باتوں سے باخبر نہیں ہے جو عالمین کے دلوں میں ہیں. اور وہ یقینا انہیں بھی جاننا چاہتا ہے جو صاحبانِ ایمان ہیں اور انہیں بھی جاننا چاہتا ہے جو منافق ہیں. اور یہ کفّار ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے راستہ کا اتباع کرلو ہم تمہارے گناہوں کے ذمہ دار ہیں حالانکہ وہ کسی کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے والے نہیں ہیں اور سراسر جھوٹے ہیں. اور انہیں ایک دن اپنا بوجھ بھی اٹھانا ہی پڑے گا اور اس کے ساتھ ان لوگوں کا بھی اور روز ه قیامت ان سے ان باتوں کے بارے میں سوال بھی کیا جائے گا جن کا یہ افترا کیا کرتے تھے.

Tafseer

									اگرکوئی شخص کس ایسے کام کی بنیاد رکھتاہے جواس عہد کے پورے معاشرے میںنفوذ کر جائے تو بنیاد رکھنے والا شخص کل معاشرہ کے اعمال کاذمہ ّ دار ہوگا . کیونکہ کسی عمل کی تحریک بھی اس کے اسباب میں س ے ہے .یہ ثابت ہے کہ جو شخص بھی محرم ک عمل ہے وہ اس عمل کے خیر و شرمیں شریک سمجھا جائے گا . خواہ وہ عمل کتناہی معمولی ہو ۔
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث روایت کی گئی ہے جو ہمارے اس قول کی موید ہے ۔
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ ایک سائل آیا اور اس نے مدد کے لیے سوال کیا . کسی نے بھی اسے کچھ نہ دیا . اتنے میں اصحاب میں س ے ایک شخص آگے بڑھا اوراس فقیر کوکچھ دے دیا : یہ دیکھ کردوسروں کو بھی خیال پیدا ہوا اور انھوں نے بھی اس سائل کی مدد کی اس موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : 
” من سن خیرا فاسنن بہ کانہ لہ اجرہ ومن اجورمن تبعة ،غیر منتقص من اجور ھم شیئا ،ومن سن شرا فاسنن بہ کان علیہ وزرہومن اوزار من تبعہ ،غیرمنتقص من اوزار ھم شیئا “
جو آدمی کسی نیک کی بنیاد رکھتاہے اوردوسرے اس کی پیروی کرتے ہیں تواسے اس کے عمل خیر اور دوسروں کے اعمال خیرکا بھی بدلہ ملے گا . بغیر اس کے کہ دوسروں کی جزامیں کچھ کمی ہو اور کوئی رسم شرک کی بنیا د رکھتاہے اور لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں تواسے اس کے اپنے گناہ اوردوسروں کے گناہوں کی بھی سزا ملے گی . اس کے بغیر کہ ان کی سز امیں کچھ تخفیف ہو (1) ۔
اس مطلب کی اوربھی حدیثیں شیعہ اورسنی کتب احادیث میں مذ کور ہیں .مگران میں سے یہ مشہور ہے ۔
 1 ۔تفسیر درا لمنشور۔