۱۔ کچھ الفاظ کے معانی
بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ ۸۱قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ۸۲لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَٰذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ۸۳قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۸۴سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ۸۵قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ۸۶سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ۸۷قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۸۸سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ ۸۹بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ۹۰
بلکہ ان لوگوں نے بھی وہی کہہ دیا جو ان کے پہلے والوں نے کہا تھا. کہ اگر ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈی ہوگئے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے ہیں. بیشک ایسا ہی وعدہ ہم سے بھی کیا گیا ہے اور ہم سے پہلے والوں سے بھی کیا گیا ہے لیکن یہ صرف پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں. تو ذرا آپ پوچھئے کہ یہ زمین اور اس کی مخلوقات کس کے لئے ہے اگر تمہارے پاس کچھ بھی علم ہے. یہ فورا کہیں گے کہ اللہ کے لئے ہے تو کہئے کہ پھر سمجھتے کیوں نہیں ہو. پھر مزید کہئے کہ ساتوں آسمان اور عرش اعظم کامالک کون ہے. تو یہ پھر کہیں گے کہ اللہ ہی ہے تو کہئے کہ آخر اس سے ڈرتے کیوں نہیں ہو. پھر کہئے کہ ہر شے کی حکومت کس کے اختیار میں ہے کہ وہی پناہ دیتا ہے اور اسی کے عذاب سے کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے اگر تمہارا پاس کوئی بھی علم ہے. تو یہ فورا جواب دیں گے کہ یہ سب اللہ کے لئے ہے تو کہئے کہ آخر پھر تم پر کون سا جادو کیا جارہا ہے. بلکہ ہم ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں اور یہ سب جھوٹے ہیں.
”اساطیر“ ”اسطورة“ کی جمع ہے، اہل لغت کے بقول یہ دراصل ”سطر“ کے مادہ سے ”صف“ کے معنی میں ہے، اسی لئے جو الفاظ ایک ہی صف میں آجائیں انھیں ”سطر“ کہتے ہیں ۔
”اسطورة“ ایسی سطروں اور تحریروں کو کہتے ہیں کہ جو دوسرں یادگار کے طور پر رہ جائیں، گذشتہ لوگوں کی تحریروں میں چونکہ افسانے اور خرافات موجود ہیں اس لئے عام طور پر یہ لفظ جھوٹی اور افسانوی داستانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
قرآن کریم میں لفظ ”اساطیر“ نو مرتبہ آیا ہے، ہر مرتبہ بے ایمان کافروں کے حوالے سے آیا ہے، وہ انبیاءعلیہ السلام کی مخالفت کرنے کی توجیہ کے لئے استعمال کرتے تھے ۔
جیسا کہ پہلی جلد میں سورہٴ حمد کی تفسیرمیں ہم نے کہا ہے: ”رب“ ”مالک مصلح“ کے معنی میں ہے لہٰذا یہ لفظ ہر چیز مالک کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس مالک کو رب کہتے ہیں کہ جو اپنی مالکیت کی اصلاح، حفاظت اور تدبیر کے درپے ہو، اس بناء پر بعض اوقات یہ لفظ تربیت وپرورش کرنے والے کے معنیٰ میں بھی آیا ہے ۔
”ملکوت“ ”ملک“ (بروزن”حکم“) کے مادے سے حکومت ومالکیت کے معنیٰ میں ہے اور ”و“ اور ”ت“ کا اضافہ تاکید اور مبالغے کے لئے ہے ۔
”عرش“ اور نچلے پاوٴں والے کے تحت کے معنیٰ میں ہے، علاوہ ازیں ”چھت“ انگور کی بیل والی اور جس پر بیٹھ کر معیار لوگ تعمیر کام کرتے ہی، اُس پاڑ کو بھی عرش کہتے جب یہ لفظ پروردگار کے حوالے سے استعمال ہو تو اس کا معنیٰ ہے ”تمام ہستی“ اور ”پوری کائنات“ کہ جو درحقیقت الله کا تختِ حکومت شمار ہوتا ہے، لیکن کبھی یہ لفظ ماورائے عالم طبیعات کے لئے بولا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں عالمِ طبیعات کے لئے لفظ ”کرسی“ استعمال ہوتا ہے مثلاً ”وسیع کرسیہ السموٰات والارض“ (بقرہ/۲۵۵)(1).
1۔ ”عرش“کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد۶ میں سورہٴ اعراف کی آیت۵۴ کے ذیل میں ہم نے تفصیلی گفتگو کی ہے ۔