Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ معاد پر ایمان، قدرتِ خدا کے حوالے سے

										
																									
								

Ayat No : 81-90

: المؤمنون

بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ ۸۱قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ۸۲لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَٰذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ۸۳قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۸۴سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ۸۵قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ۸۶سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ۸۷قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۸۸سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ ۸۹بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ۹۰

Translation

بلکہ ان لوگوں نے بھی وہی کہہ دیا جو ان کے پہلے والوں نے کہا تھا. کہ اگر ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈی ہوگئے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے ہیں. بیشک ایسا ہی وعدہ ہم سے بھی کیا گیا ہے اور ہم سے پہلے والوں سے بھی کیا گیا ہے لیکن یہ صرف پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں. تو ذرا آپ پوچھئے کہ یہ زمین اور اس کی مخلوقات کس کے لئے ہے اگر تمہارے پاس کچھ بھی علم ہے. یہ فورا کہیں گے کہ اللہ کے لئے ہے تو کہئے کہ پھر سمجھتے کیوں نہیں ہو. پھر مزید کہئے کہ ساتوں آسمان اور عرش اعظم کامالک کون ہے. تو یہ پھر کہیں گے کہ اللہ ہی ہے تو کہئے کہ آخر اس سے ڈرتے کیوں نہیں ہو. پھر کہئے کہ ہر شے کی حکومت کس کے اختیار میں ہے کہ وہی پناہ دیتا ہے اور اسی کے عذاب سے کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے اگر تمہارا پاس کوئی بھی علم ہے. تو یہ فورا جواب دیں گے کہ یہ سب اللہ کے لئے ہے تو کہئے کہ آخر پھر تم پر کون سا جادو کیا جارہا ہے. بلکہ ہم ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں اور یہ سب جھوٹے ہیں.

Tafseer

									آیات قرآن سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ منکرین معاد کو زیادہ اس امر پر حیرت تھی کہ خاک ہونے کے بعد انسان کس طرح جی اٹھیں گے، اسی لئے معاد وقیامت کے بارے میں زیادہ تر آیات قدرتِ خدا کا ذکر ہے اور اس سلسلے میں عالمِ ہستی سے مختلف مثالیں اور نمونے بیان کئے گئے ہیں تاکہ حیات بعد از ممات کے بارے میں ان کا تعجب ختم ہو ۔
زیر بحث آیات میں تین حوالوں سے اس مسئلے پر گفتگو کی گئی ہے ۔
پہلے زمین اور زمین پر رہنے والوں کے حوالوں سے، پھر آسمان اور عرش عظیم کے حوالے سے اور آخر میں عالمِ خلقت کی تدبیر اور کائنات کا نظام چلانے کے حوالے سے ۔
اس لحاظ سے یہ تینوں ایک ہی مفہوم کا مصداق ہیں: یہ احتمال بھی ہے کہ یہ تینوں مطالب منکرین معاد کے ایک ہی لقطہٴ نظر کی طرف اشارہ ہوں، مطلب یہ ہے کہ اگر تمھارا انکار اس بناء پر ہے کہ خاک شدہ انسان مالکیت الٰہی کی قلمرو سے نکل جائیں گے تو یہ غلط ہے، کیونکہ تم خود الله کی زمین اور زمین سے ہر شے کا مالک سمجھتے ہو اور اگر تم کہتے ہو کہ مُردوں کی حیاتِ نو کے بعد تدبیرِ عالم پر اعتراض ہے تو یہ بھی بے جا ہے کیونکہ تم قبول کرتے کرچکے ہو کہ تمام عالم ہستی پر وہ قادر ہے اور تمام موجودات اُس کی پناہ میں ہیں اس لحاظ سے تمھارے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
تینوں مواقع پر کفّار نے ”سیقولون الله“ کہا اور جواب کی یہ ہم آہنگی پہلی تفسیر کو تقویت دیتی ہے ۔