فیصلہ تمھارا ضمیر کرے
بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ ۸۱قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ۸۲لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَٰذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ۸۳قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۸۴سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ۸۵قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ۸۶سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ۸۷قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۸۸سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ ۸۹بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ۹۰
بلکہ ان لوگوں نے بھی وہی کہہ دیا جو ان کے پہلے والوں نے کہا تھا. کہ اگر ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈی ہوگئے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے ہیں. بیشک ایسا ہی وعدہ ہم سے بھی کیا گیا ہے اور ہم سے پہلے والوں سے بھی کیا گیا ہے لیکن یہ صرف پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں. تو ذرا آپ پوچھئے کہ یہ زمین اور اس کی مخلوقات کس کے لئے ہے اگر تمہارے پاس کچھ بھی علم ہے. یہ فورا کہیں گے کہ اللہ کے لئے ہے تو کہئے کہ پھر سمجھتے کیوں نہیں ہو. پھر مزید کہئے کہ ساتوں آسمان اور عرش اعظم کامالک کون ہے. تو یہ پھر کہیں گے کہ اللہ ہی ہے تو کہئے کہ آخر اس سے ڈرتے کیوں نہیں ہو. پھر کہئے کہ ہر شے کی حکومت کس کے اختیار میں ہے کہ وہی پناہ دیتا ہے اور اسی کے عذاب سے کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے اگر تمہارا پاس کوئی بھی علم ہے. تو یہ فورا جواب دیں گے کہ یہ سب اللہ کے لئے ہے تو کہئے کہ آخر پھر تم پر کون سا جادو کیا جارہا ہے. بلکہ ہم ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں اور یہ سب جھوٹے ہیں.
گذشتہ آیات میں توحید اور قیامت کے منکرین کو عالم ہستی اور آیات انفس وآفاق میں خود غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی تھی، زیرِ بحث آیات میں مزید فرمایا گیا ہے کہ وہ عقل وفکر کو چھوڑ کر اپنے بڑے بوڑھوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں، وہ بس وہی کہتے ہیں جو ان کے پیش رو کہتے تھے (بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْاٴَوَّلُونَ) ۔وہ حیرت کہتے تھے کہ ”کیا جب ہم مرکر مٹی اور بوسیدہ ہڈی ہوجائیں گے پھر بھی دوبارہ اٹھیں گے(قَالُوا اٴَئِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا اٴَئِنَّا لَمَبْعُوثُونَ)(1) ۔
ہمیں تو اس بات پر یقین نہیں آتا، یہ تو جھوٹے وعدے ہیں، ایسے وعدے ہم سے بھی ہوتے ہیں اور ہمارے آباء واجداد سے بھی کئے جاتے رہے (لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ) ۔ اور یہ تو پہلے لوگوں کے قصّے کہانیاں ہیں (إِنْ ھٰذَا إِلاَّ اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ) (2)۔
پھر سے خلقت ایک افسانہ ہے، حساب وکتاب بھی ایک افسانہ ہے اور بہشت ودوزخ بھی افسانہ ہیں ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ ہر موقع پر خود مشرکین سے اعتراف کروایا گیا ہے اور انہی کی بات ان کی طرف لوٹائی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے کہو: زمین اور جو کچھ اس میں ہے وہ کس کی ملکیت ہے بتاوٴ: اگر تم جانتے ہو ۔ (قُلْ لِمَنْ الْاٴَرْضُ وَمَنْ فِیھَا إِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ) ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: فطرت کی پکار اور عالمِ ہستی کے خالق پر اپنے اعتقاد کی بناء پر وہ کہتے ہیں، زمین اور جو کچھ اس میں ہے اس کی ملکیت الله کے ہاتھ ہے (سَیَقُولُونَ لِلّٰہِ) ۔
اب تم ان سے کہو: جب ایسا ہے اور تم خود بھی اعتراف کرتے ہو تو پھر کیوں متوجہ نہیں ہوتے (قُلْ اٴَفَلَاتَذَکَّرُونَ) ۔
اس واضح اعتراف کے باوجوود موت کے بعد انسان کی زندگی کو کیوں بعید کہتے ہو اور اسے خدائے عظیم کی وسیع قدرت سے کیوں دور جانتے ہیں؛ ان سے پوچھو سات آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے (قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ) ۔
اس سوال پر بھی وہ فطری پکار اور عالمِ ہستی کے خالق کے حوالے سے خدا پر اپنے اعتقاد کے باعث کہتے ہیں: یہ سب کچھ الله لئے ہے (سَیَقُولُونَ لِلّٰہِ) ۔
جب وہ یہ صریح اقرار کرتے ہیں تو کہو: تم خود اس حقیقت کے معترف ہو تو پھر الله سے ڈرتے کیوں نہیں ہو اور حیاتِ نو کی طرف بازگشت کا انکار کیو کرتے ہو (قُلْ اٴَفَلَاتَتَّقُونَ) ۔
پھر ان کے آسمانوں اور زمین کی حاکیمت کے بارے میں سوال کرو کہ ”کون ہے جس کے ہاتھوں میں تمام موجودات کی حکومت ہے“ (قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْءٍ) ۔ کون ہے جو بے سہاروں کو پناہ دیتا ہے اور جو کسی کو پناہ دینے کا محتاج بھی نہیں (وَھُوَ یُجِیرُ وَلَایُجَارُ عَلَیْہِ) اگر تم واقعاً ان حقائق سے آگاہ ہو (إِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ) ۔
پھر وہ اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ملکیت، حاکمیت اور پناہ دینا الله میں منحصر ہے (سَیَقُولُونَ لِلّٰہِ) ۔
کہو: پھر تم کیونکر کہتے ہو کہ رسول نے تم پر جادو کردیا ہے اور تم مسحور ہوگئے ہو (قُلْ فَاٴَنَّا تُسْحَرُونَ) ۔
یہ وہ حقائق ہیں کہ جن کا ت ہر مرحلے پر خود اعتراف ہو، اسے مالک ہستی جانتے ہو اور اُسے خالق ہستی مانتے ہو اور اسے مدیر ومدبّر اور حاکم وپناہ گاہ شمار کرتے ہو جس کی ذات قدرت کا یہ عالم ہو اور جس کی حکومت کا دامن اتنا وسیع ہو، کیا وہ مٹی سے پیدا کئے ہوئے انسان کو دوبارہ متی بننے کے بعد لباس حیات پہناکر محشور نہیں کرسکتا؟
تم حقائق سے کیوں منھ موڑتے ہو؟ تم رسول اسلام کو جادوگر یا دیوانہ کیوں کہتے ہو، جبکہ دل کی گہرائیوں میں ان حقائق کے معترف ہو ۔
آخر میں ایک مجموعی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جادو ہے یہ دیوانگی، ”بلکہ ہم ان کے لئے حق لے کر آئے ہیں اور اسے واضح کیا ہے، جس کو وہ جھوٹ بولتے ہیں“ (بَلْ اٴَتَیْنَاھُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّھُمْ لَکَاذِبُونَ) ۔
حقائق بیان کرنے میں ہماری اور ہمارے انبیاء کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوگی، کوتاہی سراسر ہے کہ آنکھیں بند کئے غلط راہ پر چل پڑے اور پھر ہٹ دھرمی کے ساتھ اس راستے پر چلتے جارہے ہو ۔
۔ ”تراب“ ”مٹی کا مرکز“ ”عظام“ (ہڈیوں)سے پہلے اس بناء پر کہ مٹی کا پھر سے پہلی زندگی پانا ہڈیوں کی نسبت عجیب تر ہے یا پھر اس طرف اشارہ ہے کہ ہمارے بڑے بزرگ مٹی ہوگئے ہیں اور بوسیدہ ہڈیاں ہوچکے ہیں یا یہ اس طرف اشارہ ہے کہ پہلے انسان کا گوشت مٹی ہوتا ہے اور پھر ہڈیاں مٹی میں تبدیل ہوتی ہیں ۔
. کفار ومشرکین سب سے زیادہ قیامت کے خیال سے خوف کھاتے تھے، اس لئے طرح طرح کے بہانوں اور لعن وطنز سے اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے معاد وقیامت کے بارے میں تاکیداً اور تفصیلاً گفتگو کی ہے، اس ضمن میں زیرِ بحث آیات میں تین حوالوں سے منکرین قیامت کی فضول منطق کی سرکوبی کی گئی ہے، ایک تو وسیع عالم ہستی پر الله کی مالکیت کے حوالے سے، دوسرا اس کی ربوبیت کے حوالے سے اور تیسرا سارے عالم پر اس کی حاکیت کے حوالے سے، قرآن ان تمام مباحث سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ الله ہر لحاظ سے سے معاد پر قدرت رکھتا ہے اور اس کی عدالت وحکمت کا تقاضا ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک عالم آخرت بھی ہو ۔