گزشتگان کی تاریخ سے عبرت حاصل کرو
أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَىٰ ۱۲۸وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى ۱۲۹فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ ۱۳۰
کیا انہیں اس بات نے رہنمائی نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلوں کو ہلاک کردیا جو اپنے علاقہ میں نہایت اطمینان سے چل پھر رہے تھے بیشک اس میں صاحبان هعقل کے لئے بڑی نشانیاں ہیں. اور اگر آپ کے رب کی طرف سے بات طے نہ ہوچکی ہوتی اور وقت مقرر نہ ہوتا تو عذاب لازمی طور پر آچکا ہوتا. لہذا آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور آفتاب نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے کے بعد اپنے رب کی تسبیح کرتے رہیں اور رات کے اوقات میں اور دن کے اطراف میں بھی تسبیح پروردگار کریں کہ شاید آپ اس طرح راضی اور خوش ہوجائیں.
تفسیر
گزشتگان کی تاریخ سے عبرت حاصل کرو :
چونکہ گزشتہ آیات میں مجرمین کے بارے میں بہت بحث ہوچکی ہے. لہذا پہلی زیر بحث آیت میں بیداری کے ایک بہترین اور موثر ترین طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اوروہ ہے
گزشتہ لوگوں کی تاریخ کا مطالعه. ارشاد ہوتا ہے :
کیا ان کی ہدایت کے لیے یہی بات کافی نہیں ہے کہ ہم نے بہت سی گذشتہ اقوام کو کہ جو گزشتہ زمانوں میں زندگی بسر کرتی میں ہلاک کردیا ۔ (اقلم یهد لهم کم اهلكنا قبلهم من
القرون)۔؎1
وہی لوگ کہ جو خدا کے درد ناک عذاب میں گرفتار ہوئے اور یہ ان کے ویران شدید گھروں میں آتے جاتے ہیں: (يمشون في مساكنهم).
یہ اپنی آمدورفت کے راستے میں (یمن کے سفر میں) قوم عاد کے گھروں سے (شام کے سفر میں) قوم ثمود کے مساکن سے اور (فلسطین کے سفر میں) قوم لوط کے زیر و زبر
مکانوں سے گزرتے ہیں اور ان کے آثار دیکھتے ہیں لیکن درس عبرت نهیں لیتے۔ وہ ویرانیاں کہ جو اپنی زبان بے زبانی سے گذشتہ لوگوں کے درد ناک قصے بیان کر رہی ہیں اور آج کے لوگوں اور
آنے والے لوگوں و کوان ہلاکت میں پڑنے والی نافرمان قوموں کی پیروی سے روکتی ہیں اور ان کو خبردار کر رہی ہیں ـــــ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں اور ظلم و کفر فساد کے انجام کو بیان کر رہی
ہیں۔
ہاں، ہاں ! " ان میں صاحبان عقل کے لیے واضح دلائل اور بے شمار نشانیاں موجود ہیں" (ان فی ذلك لايات الاولى النھي)۔ -1
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ" قرن" کی جو ایسے لوگوں کے معنی میں ہے جو ایک ہی زمانہ میں زندگی بسر کریں اور کبھی خود زمانہ کو بھی قران کہا جاتا ہے ("مقاربة"
کے مادہ سے)۔
؎2 "فهى "مادہ "نهی" سے یہاں عقل کے معنی میں ہے کیونکہ عقل انسان کو برائیوں اور بدیوں سے منع کرتی ہے۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
گزشتہ لوگوں کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کا موضوع ان مسائل میں سے ایک سے ، جو قرآن اور اسلامی احادیث میں بار بار آیا ہے اور حق بات یہ ہے کہ یہ ایک بیدار کرنے
والا معلم ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ کسی بھی وعظ و نصیحت کی بات سے پند و نصیحت حاصل نہیں کرتے ہوتاہے لیکن گزشتہ لوگوں کے آثار عبرت کے مناظر کا دیکھنا انہیں ہلا کر رکھ دیتا
ہے اور اکثر ان کی زندگی کے راستوں کو بدل کر رکھ دیا ہے.
پیغمبر اسلام سے ایک حدیث میں منقول ہے:
"اغفل الناس من لم یتعظ بتغير الدنيا من حال الى حال"۔
لوگوں میں سے سب سے زیادہ غافل وہ شخص ہے کہ جو دنیا کے ایک حالت سے
دوسری حالت میں بدلنے اور متغیر ہونے سے نصیت حاصل نہیں کرتا اور رات اور
دن کے بدلنے میں غور و فکر نہیں کرتا ۔ ؎1
بعد والی آیت درحقیقت ایک سوال کا جواب ہے کہ جویہاں پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس پروگرام کو جو خدا نے گزشتہ زمانہ کے مجرمین کے لیے تربیت دیا تھا، اس گروہ کے
لیے کیوں ترتیب نہیں دیتا ۔ قرآن کہتا ہے : اگر تیرے پروردگار کی سنت اور قدر اور قمر زمانہ نہ ہوتا، اور عتاب الٰہی جلد ہی انہیں دامن گیر ہوجاتا : ( ولولاكلمة سبقت من ربك فكان الزاما واجل
مسمًی)۔ سنت الٰہی کہ جسے قرآن میں متعدد مواقع پر کلمہ کہاگیا ہے ، یہ انسانوں کی آزادی کے بارے میں حکم فطرت اور زمان آفرنش کی طرف ایک اشارہ ہے کیونکہ اگر ہر مجرم کو فورًا
ہی اور بغیرکسی قسم کی مہلت دینے سزا دے دی جائے، توایمان اور عمل صلح تقریبًا یا اضطراری اور اجباری پہلو اختیار کرلیں گے اور زیادہ تر خوف اور سزا کی وحشت فوری پر انجام پا جائیں
گے۔ اسی بنا پروہ حصول کمال اور ارتقاء کا ذریعہ ـــــ کہ جو ان کا اصل مقصد ہے ـــــ نہ ہوں گے۔
سے فوری طور علاوہ ازیں اگر تمام مجرموں کو فوری سزا دیئے جانے کا حکم ہو جائے تو پھر تو کوئی بھی روئے زمین پر زندہ نہ بچے گا:
ولو يؤاخذ الله الناس بظلمهم ما ترك عليها من دابۃ (نحل / 61)۔
اسی بنا پر ضروری ہے کہ کچھ مہلت ہو تاکہ گنہگار سوچ بچار کرلیں اور اصلاح کی راہ اختیار کریں اور راہ حق کے تمام راہیوں کو خودسازی کے لیے کچھ مہلت بھی دے دی
جائے۔
" اجل مسی" کی تھی جیساکہ قرآن کی کچھ آیات سے معلوم ہوتا ہے، انسان کی زندگی کے ختم ہونے کے حتمی اور یقینی وقت کی طرف اشارہ ہے ۔ ؎2
بہرحال بے ایمان ستمگروں اور جسارت کرنے والے مجرموں کو عذاب الٰہی کی تاخیر سے مغرور نہیں ہونا چاہیے اور اس حقیقت
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 سفینتہ البحار (مادہ عبر) جلد 2 ص 146۔
؎2 مزید وضاحت کے لیے پانچویں جلد سورہ انعام کی آیہ ا ، 2 کی تفسیر کی طرف رجوع کریں۔ ترکیب نحوسی کے لحاظ سے "اجل مسی" "کلمۃ" پر عطف ہے۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کو بے پرواہی کے ساتھ نہیں دیکھنا چاہیئے کیونکہ یہ لطف خدا ، یہ سنت الٰہی اور قانون تکامل و ارتقا ہے کہ جس نے میدان کو ان کے لیے کھلا رکھا ہوا ہے۔
اس کے بعد روئے سخن پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی طرف کرتے ہوۓ قرآن کہتا ہے ، اب جب کہ یہ بنا نہیں ہے اس کے ان ببدکاروں کو فوری طور پر سزا دی جائے . توتم
ان کی باتوں پر جو وہ تمہیں کہتے ہیں صبر سے کام لو : ( فاصبر على ما يقولون)۔
پیغمبراکرم کو روحانی طور پر تقویت پہنچانے اور ان کے دل کو تسلی دینے کے لیے انہیں خدا کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں کرنے اور نماز و تسبیح کا حکم دیتے ہوئے فرمایاگیاہے :
سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اور اسی طرح رات کے درمیان اور دن کے اطراف میں اپنے پروردگار تسبیح اور حمد بجا لاؤ تاکہ تم راضی اور خوشنود رہو اور تمہارا
دل ان کی دکھ پہنچانے والی باتوں سے پریشان نہ ہو:
(وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها ومن أناء الليل فيح واطراف النهار لعلك ترضي)۔
اس میں شک نہیں کہ مشرکین کی بدگوئیوں اور ناروا باتوں پر صبر کرتے ہوئے یہ حمد و تسبح شرک و بت پرستی کے خلاف ایک مظاہرہ ہے۔
لیکن اس بارے میں کہ اس سے مطلق حمد و تسبیح ہے یا یہ روزانہ کی مخصوص پنجگانہ نماز کی طرف اشارہ ہے مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کا نظریہ تو یہ ہے کہ
ظاهر عبارت کو اس سے اسی وسیع معنی میں رہنے دیاجائے اور اس سے مطلق تسبیح و حمد کا استفادہ کرنا چاہیئے جبکہ دوسرا گروہ اس سے نماز پنجگانہ کی طرف اشارہ سمجھتا ہے، اس ترتیب
سے کہ :
" قبل طلوع الشمس ، نماز صبح کی طرف اشارہ ہے۔
اور "قبل غروبها" نماز عصر کی طرف اشاره ہے (یا نماز ظہرو عصر کی طرف کہ جن کا وقت غروب تک باقی رہتا ہے ۔
"من أناء الليل" نماز مغرب و عشا کی طرف اشارہ ہے ( اور اس طرح نماز شب کی طرف بھی)
لیکن " اطراف النهار" کی تعبیر نماز ظہر کی طرف اشارہ ہے کیونکہ"اطراف" کی جمع ہے کہ جو جانب کے معنی میں ہے، اگر دن کو دو نصف حصوں میں تقسیم کریں: تونماز ظہر
دوسرے نصف کی ایک جانب یا طرف قرار پاتی ہے.
بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ "اطراف النهار" مستحبی نمازوں کی طرف اشارہ ہے کہ جنہیں انسان دن کے مختلف اوقات میں انجام دے سکتا ہے کیونکہ " اطراف النهار"
یہاں "آناء الليل" کے مقابلہ میں ہے اور دن کے تمام اوقات کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے ( خصوصًا اس بات کی طرف توجہ کرنے ہوتے کہ اطراف جمع کی شکل میں آیا ہے جب کہ دن میں دو سے زیادہ
طرفیں نہیں ہوتیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ "اطراف ایک وسیع معنی رکھتا ہے کہ جس میں ان کی مختلف ساعتیں شامل ہیں)۔
تیسرا احتمال بھی آیت کی تفسیر میں موجود ہے اور وہ یہ کہ یہ کچھ خاص اذکار کی طرف اشارہ ہے کہ جو اسلامی روایات میں مخصوص اوقات کے لیے وارد ہوئے ہیں مثلا : اوپر
والی آیت کی تفسیریں امام صادق علیه السلام سے ایک حدیث منقول کہ امام علیہ السلام نے فرمایا :
مسلمان پر لازم ہے کر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے دس دس مرتبہ سے ذکر پڑھے :
لااله الا الله وحده لاشريك له ، له الملك وله الحمد يحيي ويميت
وهو حي لا يموت بيده الخير وهو على كل شئ قدير .
لیکن بہرحال یہ تفسیری ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں ، اور ممکن ہے کہ یہاں تسبیحات کی طرف بھی اشارہ ہو اورشب و روز کی واجب و مستحب نمازوں کی طرف بھی اشارہ ہو
اور اس طرح سے وہ تضاد جو اس سلسلے میں روایات میں پایا جاتاہے وہ بات نہیں رہے گا کیونکہ بعض روایات میں مخصوص اذکار کے ساتھ اور بعض میں نماز کے ساتھ تفسیر کی گئی ہے۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ "لعلك ترضى" کا جملہ حقیقت میں پروردگار کی حمد وتسبیح نیز ان کی باتوں پر صبروشکیبائی - کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ حمد وتسبیح اور شب و
روز کی نمازیں انسان سے خدا کے ساتھ رشتہ اور تعلق کو اسی طرح ختم کردیتے ہیں کہ وہ اس کے علاوہ کسی چیز کی فکر اور خیال نہیں کرتا، سخت حادثات سے ہراساں نہیں ہوتا اور ایسی
مضبوط پناہ گاہ کے ہوتے ہوئے دشمنوں خوف میں کھاتا اور اس طرح سے آرام و سکون اور اطمینان اس کی روح پرچھا جاتے ہیں.
اور "لعل" "شاید" کی تعبیر ممکن ہے کہ اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوکہ جو ہم پہلے بھی اس لفظ کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ "لعل" عام طور پر ایسے حالات کی
طرف اشارہ ہوتا ہے کہ جو نتیجہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں مثلا : نماز اور ذکر خدا ایسی شرائط اور حالات میں اس قسم کے سکون و آرام کا سبب بنتا ہے کہ جو حضور قلب اور کامل
آداب کے ساتھ انجام پائے۔
ضمنًا اگرچہ اس آیت میں مخاطب پیغمبراسلام صلى الله علیہ و آلہ وسلم ہیں لیکن قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ حکم عمومی پہلو رکھتا ہے ۔