4- "هبوط" کیاہے ؟
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ۱۲۳وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ۱۲۴قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا ۱۲۵قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَىٰ ۱۲۶وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ ۚ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَىٰ ۱۲۷
اور حکم دیا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ سب ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اس کے بعد اگر میری طرف سے ہدایت آجائے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ پریشان. اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی کی تنگی بھی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا بھی محشور کریں گے. وہ کہے گا کہ پروردگار یہ تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا ہے جب کہ میں دا» دنیا میں صاحبِ بصارت تھا. ارشاد ہوگا کہ اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئیں اور تونے انہیں بھلا دیا تو آج تو بھی نظر انداز کردیا جائے گا. اور ہم زیادتی کرنے والے اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب یقینا سخت ترین اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے.
4- "هبوط" کیاہے ؟
"ھبوط" لغت میں قہرًا نیچے کی طرف آنے کے معنی میں ہے ، مثلًا پتھرکا بلندی سے گرنا ۔ جس وقت یہ لفظ انسان کے بارے میں استعمال ہو تو سزا کے طور پر تنزل کی طرف راندہ
درگاہ ہونے کے معنی دیتا ہے۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آدم زمین پر ہی زندگی بسر کرنے کے لیے پیدا ہوئے تھے اور وہ جنت بھی اسی جہاں کا سرسبز پر نعمت کوئی علاقہ تھا لہذا آدم کاهبوط
ونزول یہاں نزول مقامی کے معنی میں ہے نہ کہ نزول مکانی کے معنی میں ۔
یعنی خدا نے ان کے مرتبہ و مقام کو ترک اولی کی وجہ سے تنزل کیا اور ان سب جنتی نعمتوں سے محروم کردیا اور اس جہاں کے رنج و بلا میں گرفتار کر دیا۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہاں مخاطب کرنے کے لیے تثنیہ کا صیغہ استعال ہوا ہے "اهبطا" یعنی تم دونوں نیچے اتر جاؤ ۔ ممکن ہے اس سے مراد آدم وحوا ہوں اور اگر بعض
دوسری آیات میں" اهبطوا" جمع کی صورت میں ذکر ہوا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان بھی اس خطاب میں شریک تھا کیونکہ وہ بھی بہشت سے راندہ گیا تھا۔
یہ احتمال بھی ہے کہ مخاطب آدم اور شیطان ہوں کیونکہ اس کے بعد کے جملے میں قرآن کہتا ہے :" يضحكم لبعض عدو" (تم میں سے بعض دوسرے لبعض کے دشمن ہوگے)۔
بعض مفسرین ، یہ بھی کہا ہے کہ " بعضكم لبعض عدو" سے مراد جوکہ جمع کی صورت میں خطاب ہے یہ ہےکہ ایک طرف سے آدم و حوا اور دوسری طرف سے شیطان کے
درمیان عداوت پیدا ہوگئی یا ایک طرف سے آدم اور ان کی اولاد اور دوسری طرف سے شیطان اور اس کی ذریت کے درمیان دشمنی پیدا ہوگئی ہے۔
لیکن بہرحال " اما يأتيكم منی هدى" (جس وقت میری ہدایت تمھارے پاس آۓ)کے جملہ میں حتمًا آدم و حوا کی اولاد ہی مخاطب ہے کیونکہ خدا کی ہدایت انہیں کے ساتھ مخصوص
ہے۔باقی رہ شیطان اور اس کی ذریت تو چونکہ انہوں نے اپنا حساب کتاب خدائی ہدایت سے جدا کرلیا ہے. لہذا وہ اس خطاب میں شامل نہیں ہیں۔