2- اندرونی اور بیرونی نابينائي
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ۱۲۳وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ۱۲۴قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا ۱۲۵قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَىٰ ۱۲۶وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ ۚ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَىٰ ۱۲۷
اور حکم دیا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ سب ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اس کے بعد اگر میری طرف سے ہدایت آجائے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ پریشان. اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی کی تنگی بھی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا بھی محشور کریں گے. وہ کہے گا کہ پروردگار یہ تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا ہے جب کہ میں دا» دنیا میں صاحبِ بصارت تھا. ارشاد ہوگا کہ اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئیں اور تونے انہیں بھلا دیا تو آج تو بھی نظر انداز کردیا جائے گا. اور ہم زیادتی کرنے والے اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب یقینا سخت ترین اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے.
2- اندرونی اور بیرونی نابينائي :
أن لوگوں کے لیے کہ جو خدا کی یاد سے روگردانی کرتے ہیں، زیر بحث آیات میں دو سزائیں معین کی گئی ہیں۔ ایک اس جہان کی تنگی حیات کہ جس کی طرف گزشتہ نکتے میں
اشارہ ہوا ہے اور دوسری دوسرے جہان میں نابینائی اور اندھا پن۔
ہم نے بار بیان کیا ہے کہ عالم آخرت عالم دنیا کی ایک پھیلی ہوئی اور وسیع مجسم صورت ہے اور اس دنیا کے تمام حقائق وہاں پر ایک متناسب شکل وصورت میں مجسم ہو جاتے ہیں۔ وہ
لوگ کہ جن کی روحانی انکھیں (چشم بصیرت) اس عالم میں حقائق کو دیکھنے سے نابینا ہیں ، اس جہان میں ان کے جسم کی آنکھیں بھی نابینا ہوجائیں گی۔ لہذا جس وقت وہ یہ کہیں گے کہ ہم تو پہلے
بینا تھے۔ اب نابینا کیوں محشورہوئے ہیں تو انہیں جواب ملے گا کہ یہ اس بنا پر ہے کہ تم نے خدا کی آیات کو بھلا دیا تھا (اور یہ حالت اس حالت کا عکس العمل ہے)۔
یہاں پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ قرآن کی بعض آیات کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ قیامت میں تمام لوگ بینا ہوں گےاور ان سے یہ کہا جائے گا کہ اپنا نامہ عمل پڑھو
اقرأ كتابك - - - (اسراء / 14)۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 معمائے ہستی ، ص 50 ، 51 ۔
؎2 نورالثقلين ، جلد 2 ص 45 ۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یا یہ کہ گنہگار جہنم کی آگ کو اپنی آنکھوں دیکھیں گے:
ورأى المجرمون النار..... (کہف / 53)۔
یہ تعبیرات کچھ لوگوں کے نابینا ہونے کے ساتھ کسی طرح مطابقت رکھتی ہیں۔
بعض بزرگ مفسرین نے تو یہ کہا ہے کہ اس جہان کی وضع و کیفیت اس جہان سے مختلف ہے کتنے ہی ایسے افراد ہیں کہ جو بعض امور کو تو دیکھ سکتے ہیں اور بعض دوسرے
امور کے لیے نابینا ہیں۔ مرحوم طبرسی نے بعض مفسرین سے نقل کیا ہے:
" انهم اعمى عن جهات الخير لايهتدي یشي منها"
وہ ان چیزوں کے لیے کہ جو خیر و سعادت اور نعمت ہیں نابینا ہوں گے اور ان چیزوں
کے لیے کہ جو عذاب و شر اور حسرت و بدبختی کا سبب ہیں بینا ہوں گے۔
کیونکہ اس جہان کا نظام اس جہان کے نظام سے مختلف ہے۔
یہ احتمال بھی ہے کہ وہ بعض منازل و موافقت میں تو نابینا ہوں گے اور بعض میں بینا ہوجائیں گے۔
ضمنی طور پر زمین کا دوسرے جہان میں فراموش کیا جانا ہی نہیں ہے کہ خدا انہیں بھول جائے گا بلکہ یہ بات واضح ہے کہ اس سے مراد ان کے ساتھ فراموشی والا معاملہ کرنا
ہے۔ جیساکہ ہماری روزمرہ کی زبان میں ہے کہ اگرکوئی شخص کسی دوسرے۔ سے بے اعتنائی کرے تو وہ کہتا ہے کہ ہمیں کیوں بھلا دیا ہے؟