تنگ زندگی
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ۱۲۳وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ۱۲۴قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا ۱۲۵قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَىٰ ۱۲۶وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ ۚ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَىٰ ۱۲۷
اور حکم دیا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ سب ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اس کے بعد اگر میری طرف سے ہدایت آجائے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ پریشان. اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی کی تنگی بھی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا بھی محشور کریں گے. وہ کہے گا کہ پروردگار یہ تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا ہے جب کہ میں دا» دنیا میں صاحبِ بصارت تھا. ارشاد ہوگا کہ اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئیں اور تونے انہیں بھلا دیا تو آج تو بھی نظر انداز کردیا جائے گا. اور ہم زیادتی کرنے والے اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب یقینا سخت ترین اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے.
تفسیر
تنگ زندگی :
آدم کی توبہ اگرچہ قبول ہوگئی تھی مگر انہوں نے ایسا کام کیا تھا کہ اب پہلی ہی حالت کی طرف لوٹنا ممکن نہیں تھا، لہذا خدا نے " انہیں اور حوا کوحکم دیا کہ تم دونوں ، اور اسی
طرح شیطان بھی تمھارے ساتھ ، جنت سے زمین پر اتر جاؤ ( قال اهبطا منهاجميغا)۔
"در آنحالیکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے" (بعضکم لبعض عدو)۔
لیکن میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ راہ سعادت اور نجات تمہارے سامنے کھلی ہوئی ہے. پس جس وقت میری ہدایت تمھارے پاس آئے تو تم میں سے جو کوئی اس ہدایت کی پیروی
کرے گا وہ نہ تو گمراہ ہوگا اور نہ ہی بدبخت ( فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّىْ هُدًىۙ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰى)۔
اور اس غرض سے کہ جو لوگ حق تعالی کے فرمان کو بھلا دیتے ہیں، ان کی پریشانی کا نتیجہ بھی واضح ہوجائے مزید فرمایا گیا ہے: اور جو شخص میری یاد سے روگردانی کرے
گا وہ تنگ اور سخت زندگی بسر کرے گا: (ومن اعرض عن ذكري فان له معيشة ضنکًا)۔
" اور قیامت کے دن ہم اسے نابینا محشور کریں گے" (ونحشره يوم القيامة أعمى)
وہاں وہ یہ عرض کرے گا کہ پروردگارا ! تم نے مجھے نابینا کیوں محشور کیا ہے جب کہ پہلے تو میں بینا تھا" ( قال رب لم حشرتني اعمى وقد كنت بصيرًا)۔
خدا کی طرف سے اسے فورًا یہ جواب دیا جائے گا : یہ اس بنا پر ہے کہ ہماری آیات تیرے پاس آئی تھیں تو نے انہیں فراموش کردیا اورانہیں ملحوظِ نظر نہ رکھا۔ لہذا آج کے دن تو
بھی فراموش کر دیا جائے گا۔ ( قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتْكَ اٰيَاتُنَا فَـنَسِيْتَـهَا ۖ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى) ۔
اور تیری آنکھیں پروردگار کی نعمتوں اور اس کے مقام قرب کو نہ دیکھ پائیں گی۔
اور آخر میں مجموعی نتیجہ نکالتے ہوئے آخری زیر بحث آیت میں فرمایاگیا ہے ، اور جولوگ اسراف کریں گے اور اپنے پروردگار کی آیات پر ایمان نہیں لائیں گے ہم انہیں اسی قسم
کی جزا دیں گے : ( وكذالك نجزی من اسرف ولم يؤمن بایات ربہ)۔
" اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ شدید اور زیادہ پائیدار ہے ( ولعذاب الأخرة اشد وابقٰی)۔