1- حصول وحی تک میں عجلت نہ کرو
وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا ۱۱۳فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ۱۱۴
اور اسی طرح ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح سے عذاب کا تذکرہ کیا ہے کہ شاید یہ لوگ پرہیز گار بن جائیں یا قرآن ان کے اندر کسی طرح کی عبرت پیدا کردے. پس بلند و برتر ہے وہ خدا جو بادشاہ هبرحق ہے اور آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور یہ کہتے رہیں کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما.
چند نکات :
1- حصول وحی تک میں عجلت نہ کرو :
ان جملوں میں چند تربیتی سبق موجود ہیں ۔ ان میں سے ایک حصول وحی کے وقت عجلت کرنے سے نہی ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ کسی بات کہنے والے کی بات
سنتے وقت ابھی اس کا مطلب ختم ہونے نہیں پتا کہ اسے دہرانے یا پورا کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس کام کی بنیاد کبھی تو بے صبری ہوتی ہے اور کسی غرور و خود نمائی۔ البتہ بعض اوقات مطلب
حاصل کرنے اور ماموریت کی انجام دہی کے لیے اشتیاق اور لگاؤ بھی انسان کو اس کام کے لیے آمادہ کر دیتا ہے۔ اس صورت میں عجلت پر ابھارنے والا جذبہ تو مقدس ہوتی ہے لیکن نفس عمل یعنی
عجلت کرنا عام طور پہ مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے زیر بحث آیات میں اس کام سے منع کیا گیا ہے۔ اگرچہ وہی مقصد کے لیے ہی ہو - اصولی طور پر وہ کام جو جلد بازی میں انجام پاتے
ہیں ۔ عیب ونقص سے خالی نہیں ہوتے۔ یقینی طور پر پیغمبر اکرم کا کام مقام عصمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے خطا واشتباه کرنا مناسب نہیں ہے تو پھر باقی کاموں کا معاملہ تو بالکل واضح ہوجاتاہے۔
البته عجلت کا سرعت کے ساتھ اشتباہ نہیں کرنا چاہیے۔ سرعت تو اس کو کہتے ہیں کہ پروگرام مکمل طور پر منظم ہوچکا ہے اور تمام مسائل کی جانچ پڑتال کرلی گئی ہے ، اس کے
بعد وقت ضائع کیے بغیر بلا تاخیر اس پروگرام پرعمل شروع کر دیا جائے لیکن عجلت اس کو کہتے ہیں کہ ابھی پروگرام اچھی طرح بنا نہیں ہے اور اس کے لیے ابھی تکمیل اور غور وخوض کی
ضرورت ہے اور کام شروع کر دیا جا سکے۔ اسی بنا پر "سرعت" ایک پسندیدہ عمل ہے اور "عجلت" اور جلد بازی کرنا ناپسندیدہ کام ہے۔
البتہ اس عمل کی تفسیر میں بعض دوسرے احتمالات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک احتمال یہ ہے کہ بعض اوقات وحی کے آنے میں دیر ہوجانے کی وجہ سے پیغمبر اکرم
بے تاب ہوجایا کرتے تھے۔ یہ آیات آپ کو تعلیم دے رہی ہے کہ بے تاب نہ ہوں، ہم برمحل جو کچھ ضروری ہوا آپ پر وحی کریں گے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ قرآن مجید کی آیات چونکہ جموعمی
صورت میں ایک ہی مرتبہ شب قدر میں قلب پیمغبؐر پر نازل ہوئی تھیں اور دوسری مرتبہ بتدریج ۲۳ سال کی مدت میں نازل ہوئیں ، لہذا پیغمبر صلی اللہ علی وآلہٖ وسلم تدیریجی طور پر نازل ہوتے وقت
کبھی کبھی جبرئیل سے پہلے ہی پڑھے لگ جایا کرتے تھے۔ قرآن حکم دیتا کہ تم اس کام میں عجلت مت کرو اور نزول تدیرجی کو اس کے موقع اور محل پر انجام پانے دو.
لیکن پہلی تفسی زیادہ میں معلوم ہوتی ہے۔