پروردگارا ! میرے علم کو اور زیادہ کردے
وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا ۱۱۳فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ۱۱۴
اور اسی طرح ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح سے عذاب کا تذکرہ کیا ہے کہ شاید یہ لوگ پرہیز گار بن جائیں یا قرآن ان کے اندر کسی طرح کی عبرت پیدا کردے. پس بلند و برتر ہے وہ خدا جو بادشاہ هبرحق ہے اور آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور یہ کہتے رہیں کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما.
تفسیر
پروردگارا ! میرے علم کو اور زیادہ کردے :
گزشتہ آیات میں قیامت اور وعده و وعید سے مربوط تربیتی مسائل کے بارے میں جو کچھ آیا ہے ، تو درحقیقیت ان آیات میں اس کی طرف مجموعی اعتبار سے اشارہ ہے.
فرمایا ہے: اسی طرح سے ہم نے اسے عربی (فصیح و بلیغ زبان میں) قرآن کی صورت اتارا ہے اور ہم اس میں مختلف بیانات و عبارت کے ذریعے ڈرایا ہے کہ شاید وہ تقویٰ اور
پرہیزگاری اختیار کریں ۔ یا کم سے کم ان کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہو( وكذالك انزلناه قرآنا عربيًا وصرفنا فيہ من الوعيد لعلهم يتقون اويحدث لهم ذكرًا)۔
"كذالك" کی تعبیر حقیقت میں ان مطالب کی طرف اشارہ ہے کہ جو اس آیت سے پہلے بیان ہوئے ہیں اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی انسان کسی دوسرے کے لیے بیدار کن اور
عبرت انگیز مطالب بیان کیے اور اس کے بعد کہے کہ یوں پند و نصیحت کرنا چاہیے۔ (اس بنا پر ہمیں دوسری تفسیروں کی ضرورت نہیں رہتی جو بعض مفسرین نے اس مقام پر بیان کی ہیں۔ اور وہ آیت
کے معنی کے ساتھ کوئی مطلابقت بھی نہیں رکھتیں )۔
لفظ "عربي" اگرچہ عربی زبان کے معنی میں ہے لیکن دولحاظ سے یہاں قران کی فصاحت و بلاغت اور اس کے مفاہیم کے رسا ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
پہلا یہ کہ اصولی طور پر عربی زبان ـــــ دنیا بھر کے زبان شناسوں کی تصدیق کے مطابق ــــــ ایک رسا ترین زبان ہے اور اس کا ادب قوی ترین ادب ہے۔
دوسرا یہ کبھی "صرفنا" مختلف قسم کے بیانات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن ایک حقیقت بیان کرنے اختیار کرتا ہے مثلا وعید اور مجرموں کی سزا کبھی گزشتہ أمتوں کی
سرگزشت کے لباس میں کبھی حاضرین سے خطاب کی صورت میں کبھی میدان قیامت میں ان کے حالات کی تصویر کشی کی صورت میں اور کبھی کسی دوسرا پیراۓ میں بیان کرتا ہے۔
"لعلهم يتقون “ کا " يحدث لهم ذكرًا" سے فرق ممکن ہے کہ اس لحاظ ہوکہ پہلے جملے میں تو وه یہ کہتا ہے کہ مقصد ، تقویٰ کا کامل صورت میں پیدا ہوتا ہے اور دوسرے جملہ کا
مقصد میں ہے کہ اگر مکمل طور پر تقویٰ پیدا نہیں ہوتا تو کم از کم بیدار و آگاہی تو ہونا چاہیے تاکہ اس وقت کا تو کچھ حدود میں اسے محدود کردے اور آئندہ کےلیے مثبت حرکت کا سرچشمہ بن جائے۔
یہ احتمال بھی ہے کہ پہلا جملہ تو غیر پرہیز گاروں کے لیے پرہیزگاری اور تقویٰ اختیار کرنے کی طرف اشارہ ہو اور دوسرا جملہ پرہیز گاروں کے لیے نصیحت اور یادوہانی کی
طرف اشارہ ہو جیسا کہ سورہ انفال کی آیہ 2 بیان ہوا ہے :
اذا تليت علیهم اياته زادتهم ایمانًا
جس وقت قرآن کی آیات مومنین کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
دراصل زیر بحث آیت میں تعلیم و تربیت کے دو موثر اصولوں کی طرف اشارہ ہواہے اول بیان کی صراحت اور عبارات کے رسا ہونے اور ان کے روشن و دلنشین ہونے کا مسئلہ ہے
اور دوسرے مطالب کو طرح طرح کے لباسوں میں بیان کرنا ہے تاکہ تکرار کا موجب نہ ہو اور دلوں میں اترجانے کا باعث ہو۔
بعد والی آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے ، بلند مرتبہ ہے وہ خدا جو بادشاہ برحق ہے (فتعال الله الملك الحق)۔
ممکن ہے لفظ "حق" ان کا ذکر لفظ "ملک" کے بعد اس بناء پر ہوکہ لوگ عام طور ہر لفظ "ملک" (بادشاہ) سے بڑا مفہوم لیتے ہیں اور اس سے ان کے ذہن میں ظلم و ستم اور خود سری کا
تصور پیدا ہوتا ہے۔ لہذا ساتھ ہی فرمایا گیا ہے ، خدا بادشاہ برحق ہے۔
بعض اوقات پیغمبر اکرامؐ اور آیات قرآن حاصل کرنے سے اشتیاق اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے حفظ کرنے کی خاطر نزول وحی کے وقت جلدی فرمایا کرتے تھے اور جبرئیل
کو پورے طور پر اس بات کی مہلت نہ دیتے تھے کہ وہ اپنی بات کو تمام کرلیں۔ اسی آیت کے آخری انہیں نصیحت کی جارہی ہے : قرآن کے لیے جلدی نہ کیا کرو ، اس سے پہلے کہ اس کی وحی
پوری ہو: (ولا تعجل بالقران من قبل ان يقضٰي اليك وحيه).
" اور یہ کہا کرو کہ اےپروردگارا میرے علم میں زیادتی فرما ( وقل رب زدني علمًا)۔
قرآن کی بعض دوسری آیات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر میں نزول وحی کے وقت ایک خاص کیفیت پیدا ہوجایا کرتی تھی کہ جو اس بات کا سبب بنتي تھی کہ وہ حصول وحی
میں جلدی کریں۔ مثلًا :
لاتحرك به لسانک لتعجل به ان علينلجمعه وقرانه فاذا قرأناه
فأتبع قرانه
اپنی زبان کو جلدی کی خاطر وہی حاصل کرتے وقت حرکت نہ دیا کرو ۔ اسے تیرے سینے میں جمع کرنا
ہمارے ذمہ ہے تاکہ تو اسے تلاوت کرسکے ۔ پس جب ہم اسے پڑھ چکیں تم پھر تو اسی کی
تلاوت کی پیروی کر۔ ؎1