Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2-  علم میں اضافے کے طلبگار رہو

										
																									
								

Ayat No : 113-114

: طه

وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا ۱۱۳فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ۱۱۴

Translation

اور اسی طرح ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح سے عذاب کا تذکرہ کیا ہے کہ شاید یہ لوگ پرہیز گار بن جائیں یا قرآن ان کے اندر کسی طرح کی عبرت پیدا کردے. پس بلند و برتر ہے وہ خدا جو بادشاہ هبرحق ہے اور آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور یہ کہتے رہیں کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما.

Tafseer

									 2-  علم میں اضافے کے طلبگار رہو: 
 إس سبب سے کہ وحی حاصل کرتے وقت جلد بازی سے ممانعت ممکن ہے یہ وہم پیدا کرے کہ یہاں زیادہ علم حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ لہذا ساتھ  میں فرمایاگیا ہے : یہ کہا 

کرو کہ اے پروردگار میرے علم میں اضآفہ فرما ( قل رب زدني علما)۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     سورہ قیامت 15 تا 17 -
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 اس جملے سے مذکورہ خیال رد کیا گیا ہے۔ یعنی عجلت اور جلد بازی درست نہیں ہے۔ لیکن علم میں اضافے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ 
 بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ پہلے جملے میں نبی کریم کو حکم دیا گیا ہے کہ آیات کے تمام پہلوؤں کو دوسری آیات میں وضاحت سمجھنے میں جلدی نہ کیا کرو اور دوسرے 

جملے میں یہ حکم دیاگیاہے کہ خدا سے قرآن کی آیات کے مختلف مفاہیم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی طلب کرو۔ 
 بہرحال جہاں رسول اللهؐ اس علم سے سرشار اور آگہی سے معمور روح کے باوجود اس بات پر مامور ہوں کہ اخری عمر تک خدا سے علم میں اضافہ کی دعا کرتے رہیں تو 

دوسروں کی ذمہ داری کامل طور پر واضح اور روشن ہوجاتی ہے۔ درحقیقت اسلام کی نظر میں علم کی کوئی حد یا سرحد نہیں ہوتی۔ بہت سے امور میں زیادتی اوراضافہ کا مطالبہ مذموم سے لیکن 

علم میں ممدوح ہے۔ افراط بری چیز ہے لیکن علم میں افراط کا کوئی معنی نہیں ہے۔ 
 علم کی کوئی مکانی سرحد نہیں ہے۔ چین اور ثریا بھی اس کی طلب میں دوڑنا چاہیئے ۔علم کوئی زمانی سرحد بھی نہیں رکھتا ۔ گہوارسے لے کر قبر تک جاری ہے۔ 
 اسلام معلم اور استاد کے لحاظ سے بھی کوئی سرحد نہیں بناتا کیونکہ حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے جس شخص کے پاس سے اسے ملے ۔ حاصل کرلے اور ان کو موتی کسی نا پاک 

منہ سے گرے کر اسے اٹھالے۔ 
  تلاش وکوششش کی نظر سے بھی اس کی کوئی سرحد نہیں ہے ۔ سمندروں کی گہرائیوں میں جائے اور علم حاصل کرے ۔ یہاں نکال کر اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عزیز
جان بھی دے دی. 
 اس طرح سے منطق اسلام میں لفظ " فارغ التحصیل" ایک بے معنی لفظ ہے ۔ ایک سچے مسلمان کی تحصیل علم ختم نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ ہی علم کامتلاشی اور طالب علم رہتا ہے۔ چاہے 

وہ بہترین استاد ہی کیوں نہ ہوجائے۔ 
 یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک حدیث میں امام صادق علیه السلام سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا : 
  ہم ہر شب جمعہ ایک خاص سرور اور خوشی حاصل کرتے ہیں ۔ 
 اس نے عرض کیا : 
  خدا اس خوشی میں اور زیادتی کرے، یہ کونسی خوشی ہے۔ 
 تو آپؑ نے فرمایا : 
  اذاكان ليلة الجمعة وافی رسول الله (ص) العرش ووافی الأئمة 
  (عليهم السلام) ووافینامعهم فلاتردارولحنا بابداننا اليعلم 
  مستفاد ولولا ذالك لا نفدنا۔ 
  جب شب جمعہ ہوتا ہے تو رسول اللہ (ص) کی روح پاک اور ائمه (علیهم السلام) کی ارواح اور ہم 
  ان کے ساتھ عرش خدا کی طرف جاتے ہیں اور ہماری روحیں بدنوں کی طرف نہیں لوٹتیں مگر نئے علم کے 
  ساتھ اور اگر ایسا نہ ہو تو ہمارے علوم ختم ہوجائیں۔ ؎1 
 یہ مضمون متعدد روایات میر مختلف عبارات کے ساتھ بیان ہوا ہے جو کہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم اورآئمہ کے علم میں ہمیشہ
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    تفسیر نورالثقلين، جلد 3 ،ص 397۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
اضافہ ہوتا رہتا ہے اور رہتی دنیا تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ 
 ایک اور روایت میں پیغمبر بزرگوار اسلام سے منقول بولے کہ آپؐ نے فرمایا : 
  اذا اتي على يوم لا ازداد فيه علمًا يقريتي الي الله فلا بارك الله لي 
  في طلوع شمسه۔ 
  جو دن مجھ پر ایسا آئے کہ اس میں کسی علم کا مجھ میں اضافہ نہ ہو کہ جو مجھے اللہ کے قریب کرے ، 
  اس دن کا طلوع آفتاب مجھ پر مبارک نہ ہو۔ ؎1 
 ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے: 
  اعلم الناس من جمع علم الناس الى علمه ، ویأكثر الناس قيمة 
  اكثرهم علمًا واقل الناس قيمة اقلهم علمًا. 
  لوگوں میں سے سب سے زیادہ صاحب علم وہ ہے کہ جولوگوں کے علم کا اپنے علم میں اضافہ کرے۔ 
  تمام لوگوں میں سے زیادہ گراں قدر وہ شخص ہے جس کا علم زیادہ ہو اور سب سے کم قدر و قیمت والا 
  وہ شخص ہے کہ جس کا علم سب سے کم اور تھوڑا ہو۔ ؎2 
 یہ ہے علم کی قدر قیمت اسلام کی نظر میں۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     تفسیر مجمع البیان و نورالثقلين وصافی ، زیر بحث آیات کے ذیل میں۔ 
  ؎2     سفینتہ البحار ، جلد 2 ، ص 219  (ماده علم)