Tafseer e Namoona

Topic

											

									  4- ایک اعتراض کا جواب

										
																									
								

Ayat No : 83-91

: طه

وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَا مُوسَىٰ ۸۳قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَىٰ أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ ۸۴قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ ۸۵فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدْتُمْ أَنْ يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِي ۸۶قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ ۸۷فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَٰذَا إِلَٰهُكُمْ وَإِلَٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِيَ ۸۸أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۸۹وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ ۖ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي ۹۰قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّىٰ يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَىٰ ۹۱

Translation

اور اے موسٰی تمہیں قوم کو چھوڑ کر جلدی آنے پر کس شے نے آمادہ کیا ہے. موسٰی نے عرض کی کہ وہ سب میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں نے راہ هخیر میں اس لئے عجلت کی ہے کہ تو خوش ہوجائے. ارشاد ہوا کہ ہم نے تمہارے بعد تمہاری قوم کا امتحان لیا اور سامری نے انہیں گمراہ کردیا ہے. یہ سن کر موسٰی اپنی قوم کی طرف محزون اور غصہّ میں بھرے ہوئے پلٹے اور کہا کہ اے قوم کیا تمہارے رب نے تم سے بہترین وعدہ نہیں کیا تھا اور کیا اس عہد میں کچھ زیادہ طول ہوگیا ہے یا تم نے یہی چاہا کہ تم پر پروردگار کا غضب وارد ہوجائے اس لئے تم نے میرے وعدہ کی مخالفت کی. قوم نے کہا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدہ کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ ہم پر قوم کے زیورات کا بوجھ لاد دیا گیا تھا تو ہم نے اسے آگ میں ڈال دیا اور اس طرح سامری نے بھی اپے زیورات کو ڈال دیا. پھر سامری نے ان کے لئے ایک مجسمہ گائے کے بچے کا نکالا جس میں آواز بھی تھی اور کہا کہ یہی تمہارا اور موسٰی کا خدا ہے جس سے موسٰی غافل ہوکر اسے طور پر ڈھونڈنے چلے گئے ہیں. کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ یہ نہ ان کی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ ان کے کسی نقصان یا فائدہ کا اختیار رکھتا ہے. اور ہارون نے ان لوگوں سے پہلے ہی کہہ دیا کہ اے قوم اس طرح تمہارا امتحان لیا گیا ہے اور تمہارا رب رحمان ہی ہے لہذا میرا اتباع کرو اور میرے امر کی اطاعت کرو. ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے گرد جمع رہیں گے یہاں تک کہ موسٰی ہمارے درمیان واپس آجائیں.

Tafseer

									 4- ایک اعتراض کا جواب : 
 مشهور مفسیر فخرالدین رازی نے یہاں ایک اعتراض پیش کیا ہے۔ وہ کہتا ہے : 
 شیعہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث : انت منی بمنزلة هارون من موسٰی: 
   "تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسٰی کے ہارون سے تھی ، سے ولایت علی کے لئے 
  استدلال کرتے ہیں ، حالانکہ ہارون نے بت پرستوں کے عظیم انبوہ کے مقابلہ میں ہرگز تقیہ 
  اختیار نہیں کیا تھا اورصراحت کے ساتھ لوگوں کو اپنی پیروی اور دوسروں کی متابعت ترک 
  کرنے کی دعوت دی تھی۔ 
  اگر واقعًا امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی رحلت کے بعد خطا کی راہ اختیار 
  کرلی تھی ، توعلی (علیہ السلام) پر یہ واجب تھا کہ وہ بھی ہارون کا سا طرز عمل اپناتے۔ 
  منبر پر جاتے اور کسی قسم کا خوف اور تقیہ کیے بغیر "فاتبعونی واطيعوا امری"
  کہتے۔ چونکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ امت کا طریقہ کاراس زمانے 
   میں حق اور درست تھا۔ 
  لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فخرالدین رازی نے اس بارے میں دو بنیادی نکات سے غفلت کی ہے. 
 یہ جوانہوں نے کہا ہے کہ علی علیہ السلام نے اپنی خلافت بلا فصل کے متقلق کسی بات کا انکار نہیں کیا، اشتباه ہے اور غلط ہے کیونکہ ہمارے پاس بے شمارحوالے ایسے موجود 

ہیں کہ امام  نے مختلف مواقع پر اس امر کو بیان فرمایا ہے ۔ کبھی صریح اور کھلم کھلا طور پر اور بھی در پردہ طریقے سے کتاب نهج البلاغہ میں آپ کے کلام کے مختلف حصے نظر آتے ہیں، مثلا 

خطبہ شقشقیہ ،  خطبہ سوئم  ، خطبہ 87 ، خطبہ 97، خطبہ 154 اور خطبہ 147 کہ جو سب کے سب اس سلسلے میں بیان ہوئے ہیں۔ 
 تفیرنمونہ کی تیسری جلد میں سورہ مائدہ کی آیہ 67  کے ذیل میں واقعہ غدیر کے بیان کرنے کے بعد ہم نے متعدد روایات نقل کہ خود حضرت علی نے بارہا اپنی حیثیت اور خلافت بلا 

فصل ثابت کرنے کے لیے حدیث غدیر سے استناد کیا ہے (مزید وضاحت کے لیے جلد پنجم ، ص 38 کے بعد کے صفحات کی طرف رجوع کریں۔ 
 پیغمبر صلى الله علیہ و آلہ وسلم کے بعد مخصوص حالات تھے۔ وہ منافق کہ جو وفات پیغمبر کے انتظار میں دن گن رہے تھے انہوں نے خود کو ازسرنو اسلام پر آخری ضرب لگانے 

لیے تیار لیا تھا ۔ لہذا ہم  دیکھتے ہیں کہ اصحاب الرده (اسلامی انقلاب مخالف گروہ) نے فورًا ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں قیام کیا۔ اگر مسلمانوں کی وحدت، اجتماعیت اور ہوشیاری نہ ہوتی تورمکن 

تھا کہ وہ اسلام پر ناقابل تلافی ضربیں لگاتے۔ علیؑ نے اس امر کی خاطر بھی خاموشی اختیار کی کہ دشمن غلط فائدہ نہ اٹھائے۔ 
 اتفاق کی بات یہ ہے کہ حضرت ہارونؑ نے بھی – باوجود اس کے کہ موسٰیؑ زندہ تھے ۔ بھائی کی سرزنش کے جواب میں کہ تونے کوتاہی کیوں کی صریحًا یہی کہا کہ : 
  اني خشيت أن تقول فرقت بين بني إسرائيل 
  میں اس بات سے ڈرا کہ تو مجھ سے یہ کہے کہ تونے بنی اسرائیل کے درمیان تقرقہ ڈال دیا۔
 اور یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ علی نے بھی اختلاف کے خوف سے ایک حد تک خاموشی اختیار کی ۔