Tafseer e Namoona

Topic

											

									  1- شوق دیدار

										
																									
								

Ayat No : 83-91

: طه

وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَا مُوسَىٰ ۸۳قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَىٰ أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ ۸۴قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ ۸۵فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدْتُمْ أَنْ يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِي ۸۶قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ ۸۷فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَٰذَا إِلَٰهُكُمْ وَإِلَٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِيَ ۸۸أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۸۹وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ ۖ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي ۹۰قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّىٰ يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَىٰ ۹۱

Translation

اور اے موسٰی تمہیں قوم کو چھوڑ کر جلدی آنے پر کس شے نے آمادہ کیا ہے. موسٰی نے عرض کی کہ وہ سب میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں نے راہ هخیر میں اس لئے عجلت کی ہے کہ تو خوش ہوجائے. ارشاد ہوا کہ ہم نے تمہارے بعد تمہاری قوم کا امتحان لیا اور سامری نے انہیں گمراہ کردیا ہے. یہ سن کر موسٰی اپنی قوم کی طرف محزون اور غصہّ میں بھرے ہوئے پلٹے اور کہا کہ اے قوم کیا تمہارے رب نے تم سے بہترین وعدہ نہیں کیا تھا اور کیا اس عہد میں کچھ زیادہ طول ہوگیا ہے یا تم نے یہی چاہا کہ تم پر پروردگار کا غضب وارد ہوجائے اس لئے تم نے میرے وعدہ کی مخالفت کی. قوم نے کہا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدہ کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ ہم پر قوم کے زیورات کا بوجھ لاد دیا گیا تھا تو ہم نے اسے آگ میں ڈال دیا اور اس طرح سامری نے بھی اپے زیورات کو ڈال دیا. پھر سامری نے ان کے لئے ایک مجسمہ گائے کے بچے کا نکالا جس میں آواز بھی تھی اور کہا کہ یہی تمہارا اور موسٰی کا خدا ہے جس سے موسٰی غافل ہوکر اسے طور پر ڈھونڈنے چلے گئے ہیں. کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ یہ نہ ان کی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ ان کے کسی نقصان یا فائدہ کا اختیار رکھتا ہے. اور ہارون نے ان لوگوں سے پہلے ہی کہہ دیا کہ اے قوم اس طرح تمہارا امتحان لیا گیا ہے اور تمہارا رب رحمان ہی ہے لہذا میرا اتباع کرو اور میرے امر کی اطاعت کرو. ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے گرد جمع رہیں گے یہاں تک کہ موسٰی ہمارے درمیان واپس آجائیں.

Tafseer

									  چند اہم نکات : 
 1- شوق دیدار : 
 جولوگ عشق خدا کے جذبے سے بے خبر ہیں انہیں موسٰیؑ کی وہ گفتگو جو انہوں نے پروردگار کے اس سوال ــــــ کہ تم میعادگاہ کی طرف اتنی تیزی اور جلدی سے کیوں چلے آئے ــ 

کے جواب میں کی ، ممکن ہے جب معلوم ہوتی ہو کیونکہ وہ یہ جواب دیتے ہیں :  
  وعجلت اليك رب لترضٰی 
  پروردگارا ! میں نے تیری طرف (آنے کے لیے اس لئے) جلدی کی تاکہ تیری رضا 
  حاصل کروں۔ 
  وعدہ وصل چوں شود نزدیک    آتش عش تیز تر گردو 
 وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کونسی پر اسرار قوت موسٰی کو "اللہ" کی میعادگاہ کی طرف کھینچ کرلے جارہی تھی  اور وہ اتنی تیزی کے ساتھ چلے جارہے تھے کہ ان افراد کو 

بھی کہ جو ان کے ساتھ پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ 
 موسٰیؑ نے اس سے پہلے بھی دوست کے وصال کی حلاوت اور پروردگار کے ساتھ مناجات کا مزہ چکھا ہوا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ پوری دنیا بھی اس مناجات کے ایک لمحہ کے برابر 

نہیں ہوسکتی۔ 
 ہاں ، ان لوگوں کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے ــــ جوعشق مجازی سے گزکر عشق حقیقی اور عشق معبود جاودانی کے مرحلے میں قدم رکھ چکے ہیں - اس خدا کا عشق کہ جس کی ذات 

پاک میں فنا کی گنجائش ہی نہیں ہے اور وه کمال مطلق ہے اور بے حد و انتها خوبی کا مالک ہے۔ 
  آنچہ خوباں ہمہ دارند او تنہا وارد 
 بلکہ سب میں جو الگ الگ خوبیاں پائی جاتی ہیں وہ اس کی جادواں خوربی کا ایک معمولی سا پر تو ہے۔ 
  اے عظیم پروردگار ! اس مقدس عشق کا ایک ذرہ ہمیں بھی چکھادے. 
 ایک روایت کے مطابق امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : 
  "المشتاق لايشتهي طعامًا ، ولا يلتذ شرابًا ، ولا يستطيب رقادًا، 
  ولا يا فرحمیمًا ، ولا يأوي دارا ۔ ۔ . . .  ۔ ویعبدالله ليلًا ونهارًا 
  راجيًا بان يصل الٰى مايشتاق اليه۔ ۔ ۔ ۔ ... ۔ ۔ كما أخبر الله عن 

  موسی بن عمران في ميعاد ربه بقوله وعجلتہ ، اليك رب لترضي. 
  عاشق بے قرار کو نہ تو کھانے کا ہوش ہوتا ہے ، نہ اس سے خوشگوار شربت کی طلب ہوتی ہے 
  نہ اسے چین کی نیند آتی ہے نہ اس کا کسی دوست سے جی لگتا ہے۔ اور نہ ہی کسی گھر 
  میں اسے آرام آتا ہے ۔ ۔ ۔ بلکہ وہ خدا کی رات دن بندگی کرتا ہے۔ اس امید پر کہ اپنے 
  محبوب (اللہ تک پہنچ جائے ۔ ۔ ۔ جس طرح سے کہ خدا موسٰیؑ بن عمران کے بارے
  میں اس کے پروردگار کی میعادگاه  (میں پہنچنے) کے سلسلے میں بیان فرماتا ہے ، کہ
  "عجلت اليك رب لترضٰی" ۔؎1