سامری کا شور و غوغا
وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَا مُوسَىٰ ۸۳قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَىٰ أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ ۸۴قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ ۸۵فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدْتُمْ أَنْ يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِي ۸۶قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ ۸۷فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَٰذَا إِلَٰهُكُمْ وَإِلَٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِيَ ۸۸أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۸۹وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ ۖ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي ۹۰قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّىٰ يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَىٰ ۹۱
اور اے موسٰی تمہیں قوم کو چھوڑ کر جلدی آنے پر کس شے نے آمادہ کیا ہے. موسٰی نے عرض کی کہ وہ سب میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں نے راہ هخیر میں اس لئے عجلت کی ہے کہ تو خوش ہوجائے. ارشاد ہوا کہ ہم نے تمہارے بعد تمہاری قوم کا امتحان لیا اور سامری نے انہیں گمراہ کردیا ہے. یہ سن کر موسٰی اپنی قوم کی طرف محزون اور غصہّ میں بھرے ہوئے پلٹے اور کہا کہ اے قوم کیا تمہارے رب نے تم سے بہترین وعدہ نہیں کیا تھا اور کیا اس عہد میں کچھ زیادہ طول ہوگیا ہے یا تم نے یہی چاہا کہ تم پر پروردگار کا غضب وارد ہوجائے اس لئے تم نے میرے وعدہ کی مخالفت کی. قوم نے کہا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدہ کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ ہم پر قوم کے زیورات کا بوجھ لاد دیا گیا تھا تو ہم نے اسے آگ میں ڈال دیا اور اس طرح سامری نے بھی اپے زیورات کو ڈال دیا. پھر سامری نے ان کے لئے ایک مجسمہ گائے کے بچے کا نکالا جس میں آواز بھی تھی اور کہا کہ یہی تمہارا اور موسٰی کا خدا ہے جس سے موسٰی غافل ہوکر اسے طور پر ڈھونڈنے چلے گئے ہیں. کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ یہ نہ ان کی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ ان کے کسی نقصان یا فائدہ کا اختیار رکھتا ہے. اور ہارون نے ان لوگوں سے پہلے ہی کہہ دیا کہ اے قوم اس طرح تمہارا امتحان لیا گیا ہے اور تمہارا رب رحمان ہی ہے لہذا میرا اتباع کرو اور میرے امر کی اطاعت کرو. ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے گرد جمع رہیں گے یہاں تک کہ موسٰی ہمارے درمیان واپس آجائیں.
تفسیر
سامری کا شور و غوغا :
ان آیات میں موسٰیؑ اور بنی اسرائیل کی زندگی کا ایک اور اہم حصہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ حضرت موسٰیؑ سے بنی اسرائل کے نمائندوں کے ساتھ کوہ طور کی وعده گاہ پہلے پرجانے اور
ان کی غیبت کے زمانے میں بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی سے متعلق ہے۔
پروگرام کے یہ تھاکہ حضرت موسٰیؑ تورات کے احکام حاصل کرنے کے لئے کوہ طور جائیں اور بنی اسرائیل کے کچھ افراد بھی اس سفر میں ان کے ساتھ رہیں تاکہ اس سفرمیں خدا
شناسی اور وحی کے بارے میں نئے حقائق ان کے لیے آشکار ہوں۔
پروردگار سے مناجات کا شوق اور وحی کی آواز سننے کا اشتیاق حضرت موسٰیؑ کے دل میں موجزن تھا۔ اس طرح سے کہ گویا آپ کو اپنی خبر نہ تھی ، اور یہاں تک کہ روایات میں
ہے کہ آپ کو کھانے پینے اور آرام کا ہوش نہ تھا۔ لہذا انہوں نے بڑی تیزی ساتھ یہ راستہ طے کیا اور دوسروں سے پہلے اکیلے ہی پروردگار کی وعدہ گاہ میں پہنچ گئے۔
یہاں آپ پر وحی نازل ہوئی "اے موسٰی ! کیا سبب ہوا کہ اپنی قوم سے پہلے ہی آ پہنچا اور اس قدر جلدی کی کہ ( وما اعجلك عن قومك ياموسٰی)۔
موسٰیؑ فورًا عرض کیا ، پوردگارا وہ میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں نے تیری میعادگاه اورمحضروحی تک پہنچنے کے لیے اس لیے جلدی کی تاکہ تو مجھ سے راضی اور خوشنود ہو
( قال هم اولاء على اثری وعجلت اليك ربى لترضی )۔
نہ صرف تیری مناجات اور تیری بات سننے کے عشق نے مجھے بے قرار کیا ہوا تھا بلکہ میں مشتاق تھا کہ جتنا جلدی ہوسکے تیرے قوانین واحکام حاصل کروں اور تیرے بندوں تک
انہیں پہنچاؤں اور اس طرح خوب تیری رضا حاصل کروں۔ ہاں ! میں تیری رضاکا عاشق ہوں اور تیرا فرمان سننے کا مشتاق ہوں۔
لیکن آخر میں، پروردگار کے معنوی جلوؤں کے دیدار کی مدت یس راتوں سے بڑھ کر چالیس راتیں کر دی گئی اس طرح مختلف قسم کے اسباب جو پہلے سے ہی بنی اسرائیل میں
انحراف کے لیے موجود تھے، اپنا کام کر گئے ۔ سامری جیسا ہوشیار اور منحرف آدمی استاد بن گیا۔ اس نے کچھ چیزوں سے کام لے کر ایک بچھڑا بنایا اور قوم کو اس کی پرستش کرنے کی دعوت دی۔
ان چیزوں کے بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے۔
اس میں شک نہیں کہ چند ایسی باتیں رونما ہوئیں کہ جو مل کر توحید سے کفر کی طرف ان کے عظیم انحراف کا سبب بنیں جیسے مصریوں کی گوسالہ پرستی یا دریائے نیل کو عبور
کرنے کے بعد بت پرستی (گاؤ پرستی) کا منظر دیکھنا اور ان کا انہیں کی مانند بت بنانے کی خواہش کرنا اور اسی طرح موسٰیؑ کی طور پر ٹھہرنے کی مدت بڑھ جانا اور منافقین کی طرف سے ان کی
موت کی خبر اڑانا اور آخرکاراس قوم کی جہالت و نادانی نے اثر دکھایا کیونکہ اجتماعی واقعات و حادثات عام طور پر کسی تمہید کے بغیر پیش نہیں آتے۔ زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے کہ کبھی تو یہ مقدمات
آشکار اور واضع ہوتے ہیں اور کبھی چھپے ہوئے۔
بہرحال شرک اپنی بدترین صورت میں بنی اسرائیل کو دامن گیر ہوگیا ۔ خاص طور پر جبکہ قوم کے بزرگ بھی حضرت موسٰیؑ کے ساتھ میعادگاہ میں موجود تھے اور اس قوم کے رہبر
صرف اور صرف ہارونؑ ہی تھے اور ان کا کوئی موثر حامی و مددگاربھی وجود نہیں تھا۔
آخر کار یہی موقع تھا کہ خدا نے ان کو اسی میعادگاہ میں فرمایا : ہم نے تمہاری قوم کی تمہارے بعد آزمائش کی ہے لیکن وہ اس امتحان میں پورے نہیں اترے اور سامری نے انہیں
گمراہ کر دیا ہے: ( قال فأنا قد فتنا قومك من بعدك واضلهم السامري)
حضرت موسٰیؑ یہ بات سنتے ہی ایسے پریشان ہوگئے گویا ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی ہے ۔ شاید وہ دل ہی دل میں کہتے ہوں گے ، میں نے سالہا سال تک خون جگر پیا، زحمتیں
اٹھائیں، ہرقسم کے خطرے کا سامنا کیا تب جا کر کہیں اس قوم کو توحید سے آشنا کیا لیکن افسوس صد افسوس میری چند روزه غیبت میں میری محنتیں برباد ہوگئیں۔
لہذا فوری طور پر "موسٰیؑ غصے میں بھرے ہوئے اور افسوس کرتے ہوئے اپنی قوم کی طرف پلٹے" (فرجع موسٰی الی قومه غضبان اسفًا)۔
جس وقت ان کی نگاہ ، گوساله پرستی کے اس تکلیف دہ منظر پر پڑی تر وہ چیخ اٹھے ، اے میری قوم ! کیا تمہارے پروردگار نے تمہارے ساتھ اچھا وعدہ نہیں کیا تھا :( قال يا قوم الم
يعد كم ربكم عدًاحسنًا)۔
یہ اچھا وعده تھا تو وہ وعدہ تھا کہ جو بنی اسرائیل سے تورات کے نزول اور اس میں آسمانی احکام کے بیان کے سلسلے میں کیاگیاتھا یا یہ نجات پانے اور آل فرعون پر کامیابی حاصل
کرنے اور زمین کی حکومت کا وارث بن جانے کا وعدہ تھا یا یہ ان لوگوں کے لیے جو توبہ کریں ، ایمان لائیں اور عمل صالح بجالائیں، مغفرت اوربخشش کا وعدہ تھا یا ان تمام امور سے متعلق وعدہ
تھا۔
اس کے بعد مزید کہا : " کیا تم سے میری جدائی کی مدت زیادہ ہوگئی ہے "۔ (افطال عليكم العهد)۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ : میں نے مانا کہ میری واپسی کی مدت تیس دن سے بڑھ کر چالیس دن ہوگئی تھی مگریہ کوئی ایسا زیادہ طولانی زمانہ نہیں ہے ۔ کیا تمہیں خود ہی
نہیں چاہیئے تھا کہ اس تختصر سی مدت میں اپنے آپ کو محفوظ رکھتے۔ یہاں تک کہ اگر میں سالہا سال بھی تم سے دور رہتا تو بھی خدا کا دین کہ جس کی میں نے تمھیں تعلیم دی ہے اور وہ معجزات
کہ جن کا تم نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے ـــــــ تمہارے پیش نظر ہونے چاہیں تھے اور تمہیں میری تعلیمات کی پیروی کرنا چاہیے تھی ۔
یا تم اپنے اس قبیح عمل کے ذریعے یہ چاہتے تھے کہ تمہارے پروردگار کا غضب تم پر نازل ہو ، جبھی تو تم نے مجھ سے باندھے ہوئے عہد کی مخالفت کی ہے (ام اردتم ان يحل
عليكم غضب من ربكم فلخلفتم موعدی)۔ ؎1
میں نے تم سے یہ عہد لیا تھا کہ تم عقيدة توحید اور پروردگار کی نالمن اطاعت کی راہ پر قائم رہو گے اور اس سے معمولی سا انوان بھی نہیں کروگے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے میں نے تم
سے یہ عہد لیا تھا کہ تم عقیدہ توحید اور پروردگار کی خالص اطعت کی راہ پر قائم راہو گے اور اس سے معمولی سا انحراف بھینہیں کرو گے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم میری عدم موجودگی میں
میری ان ساری باتوں کو بھلا دیا اور میں بھائی ہارون کا حکم ماننے سے بھی تم سنے انکارکردیا۔
بنی اسرائیل نے جب دیکھا کہ موسٰی ان پر سخت غصے میں ہیں اور اس بات پر متوجہ ہوئے کہ واقعًا انہوں نے بہت ہی بڑا کام انجام دیا ہے تو عذرتراشی پر اتر آئے اور کہنے لگے
: ہم نے اپنے اختیار کے ساتھ توتیرے عہد کی خلاف ورزی نہیں کی" (قالوا ما خلفنا موعدك بملكنا) "
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی شخص کا ارادہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے لیے پروردگار کا غضب خریدے لہذا اس عبارت سے مراد یہ ہے کہ تمھارا عمل اس قسم کا ہے کہ گویا تم نے خود
اپنے لیے اس قسم کا ارادہ کرلیا ہے۔
؎2 "ملک (بروزن درک) اور "ملک" (بروزن "پلک") دونوں کسی چیز کے مالک ہونے کے معنی میں ہیں اور بنی اسرائیل کی اس سے مراد یہ تھی کہ ہم اس کام کے کرنے میں صاحب اختیار
اور مالک نہیں تھے بلکہ ہم اس سے ایسے متاثر ہونے کے دین و دل ہاتھ سے جاتارہا۔ بعض مفسیرین نے اس جملہ کہ بنی اسرائیل کی ایک اقلیت سے متعلق سمجھا ہے کہ جنہوں نے گؤلہ سالہ کی
پرستش نہیں کی تھی۔ (کہتے ہیں کہ ان میں سے کچھ لاکھ افراد گؤسالہ پرستی کرنے لگ گئے تھے۔ صرف بارہ ہزار افراد توحید باقی رہے) لیکن جو تفسیر ہم نے اوپر بیان کی ہے وہ زیادہ صحیح نظر
آ تی ہے۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
در اصل ہم خود اپنے ارادے سے گؤسالہ پرستی کی طرف مائل نہیں ہوئے تھے۔ "فرعونیوں کے قیمتی زیورات ہمارے کہ جنہیں ہم نے اپنے سے دور پھینک دیا اور سامری نے بھی انہیں پھینک دیا" (
ولكنا حملنا أوزارًا من زينة القوم فقذ فناها فكذالك القى السامری)۔۔
اس بارے میں کہ بنی اسرائیل نے کیا کیا اور سامری نے کیا کیا اور اوپر والی آیات کے جملوں کا حقیقتًا کیا معنی ہے ؟ میں مفسرین کی مختلف آرا ہیں کہ جن میں شیعہ کے لحاظ سے
کوئی زیادہ فرق نظر نہیں ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ اس جملے کا معنی یہ هے ، یعنی ہم نے ان زیورات کو جہنیں مصر سے چلنے سے پہلے فرعونوں سے لیا تھا ، آگ میں پھینک دیا۔ سامری کے پاس بھی کچھ کر تھا
، اس نے بھی آگ میں پھینک دیا۔ یہاں تک کہ وہ گھل گئے تو اس نے ان سے گؤسالہ بنالیا۔
بعض کہتے ہیں کہ اس جملے کا معنی یہ ہے کہ ہم نے زیورات کو اپنے سے دور پھینک دیا اور سامری نے انہیں اٹھاکرآگ میں ڈال دیا تاکہ اس سے گؤسالہ بنائے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ " فكذالك القى السامری" ان سارے منصوبوں کی طرف اشارہ ہو کہ جو سامری نے جاری لیے تھے۔
بہرحال یہ عام معمول ہے کہ جس وقت کوئی بزرگ اپنے سے چھوٹوں کو اس گناہ کے بارے میں کہ جب کے وہ مرتکب ہوئے ہیں ملامت کرتا ہے ، تو وہ اس بات کی کوشش کرتے
ہیں کہ جو اپنے ارادہ اور رغبت کےساتھ توحید سے شرک طرف مائل ہوۓ تھے ، یہی چاہا کہ سارا گنا سامری کی گردن پر ڈال دیں۔
بہرحال سامری نے فرعونیوں کے آلات زینت سے کہ فرعونوں نے ظلم دستم کے ذریعے حاصل کیے ہوئے تھے اور جن کا اس کے علاوہ اور کوئی مصرف نہیں تھا کہ وہ اس کے
فعل حرام پر خرچ ہوں، " ان کے لیے ایک بچھڑے کا مجسمہ بنایا جو ایک ایسی مورت تھی ، جس میں سے گائے کی سی آواز آتی تھی ( فاخرج لهم عجلًاجدًا له خوار)۔ ؎1
بنی اسرائیل نے جب یہ منظر دیکھاتو اچانک حضرت موسٰیؑ کی تمام توحیدی تعلیمات کو بھول گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے: یہ ہے تمہارا خدا اور موسٰی کا خدا"۔ (فقالوا هذا
الهكم واله موسٰی) ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ یہ بات کہنے والے سامری ، اس کے یارو مددگار اور اس کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے تھے۔
"اوراسی طرح سامری نے موسٰیؑ کے ساتھ ، بلکہ موسٰیؑ کے خدا کے ساتھ کیا ہوا اپنا عہد و پیمان بھلادیا اور لوگوں کو گمراہی میں دھکیل دیا
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "خوار" گاۓ اور گؤسالہ کی آواز کے معنی ہے اور کبھی اونٹ کی آواز پر بولا جاتا ہے۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(فنسی)۔
بعض مفسرین نے یہاں "نسیان" کی گمراہی اور بے راہ روی سے معنی میں تفسیر کی ہے، یانسیان کا فاعل موسٰی کو جانا ہے اور کہا ہے کہ یہ جملہ سامری کا کلام ہے ، وہ یہ کہنا
چاہتاہے کہ: موسٰی اس بات کو بھول گئے ہیں کہ یہی بچھڑا تمہارا خدا ہے لیکن یہ تمام تفسیریں آیت سے ظاہر کے مخالفت ہیں کہ سامری نے موسٰی اور موسٰی کے خدا سے کیے ہوئے عہد و پیمان
کو بھلا دیا اور بت پرستی راستہ اختیار کرلیا۔
یہاں خدا ان بت پرستوں کو تو بیخ و سرزنش کے عنوان سے کہتا ہے : کیا وہ یہ نہیں رکھتے ان کا یہ بچھڑا ان کا جواب تک نہیں دیتا۔ نہ تو ان سے کسی قسم کے ضر کو دور کر
سکتا ہے، اور نہ ہی انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتاہے پر (افلا يرون الا يرجع اليهوقو ولايملك لهم ضرا ولانفعًا )۔ ٍ
ایک حقیقی معبود کو کم از کم اپنے بندوں کے سوالات کے جواب تو دینے چاہئیں۔ کیا صرف اس مجسمہ طلائی سے آواز کاسنائی دينا ایسی آواز کہ جس میں کسی اراده و اختیار کا
احساس نہیں ہے ــــ پرتش کرنے کی دلیل بن سکتاہے؟
ہم فرض کریں کہ ان کی باتوں کا جواب دے بھی دے ، تو وہ زیادہ سے زیادہ وہ ایک ایسا وجود ہو گا ، جیسا کہ ایک ناتواں انسان ہے جو نہ کسی دوسرے کے نفع و نقصان پر قادر ہے
اور نہ ہی خود اپنے نفع و نقصان کا مالک ہے۔ کیا کوےی اس صورت میری عبود ہو سکتا ہے؟
کی عقل اس بات کی اجازت دی ہے کہ انسان ایک ہے جان مجسمہ کی کہ جس سے کبھی کبھی بے معنی آواز نکلتی ہو ، پرستش کرےاور اس کے سامنے سر تعظیم جھکائے؟
اس میں شک نہیں کہ اس شور و غوغا میں حضرت موسٰی کے جانشین اور خدا کے بزرگ پیغمبر ہارون نے اپنی رسالت کے فرائض کو پورے طور پر انجام دیا اور انحراف و فساد
سے مقابلہ کرنے کا فریضہ جتنا ان کے لیے ممکن تھا ادا کرتے رہے۔ جیسا کہ قران کہتا:
"ہارون نے موسٰی کے میعادگاہ سے واپس آنے سے پہلے بنی اسرائیل سے یہ بات کی کہ تم سخت آزمائش میں ڈال دیئے گئے ہو ۔ لہذا تم دھوکا نہ کھاؤ اور راہ خدا
(توحید) سے منحرف نہ ہو ، ( ولقد قال لهو هارون من قبل یا قوم انما فتنتم به).
اس کے بعد مزید کہا : " تمہارا پروردگار مسلمًا وہی بخشنے والا خدا ہے کہ میں نے یہ سب نعمتیں تمهیں مرحمت فرمائی ہیں" (وان ربكم الرحمن) ۔
تم غلام تھے ، اس نے تمہیں آزادی دی۔ تم اسیرتھے ، اس نے تمہیں رہائی بخشی ۔ تم گمراہ تھے ، اس نے تمہیں ہدایت کی ، تم پراگندہ اور بکھرے ہوئے تھے ، اس نے تمہیں ایک الٰہی
انسان کی رہبری کے زیرسایہ جامع اور متحد کیا۔ تم جاہل اور بھٹکے ہوئے تھے اس نے تمہیں علم کے نور سے اجالا بخشا اور توحید کے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کی ۔
"آب جبکہ معاملہ اس طرح ہے تو میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو : (فاتبعونی واطيعوا امری )۔
قرار دی ہے۔ پورت مشکی کیوں کر رہے ہو اور کس کیا تم یہ بات بھول گئے ہو کہ میرے بھائی موسی نے مجھے اپنا جانشین بنایا ہے اور میری اطاعت تم پر فرض اور واجب
لیے خود کو ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں گرا ر ہے ہر
لیکن بنی اسرائیل اس طرح ہٹ دھری کے ساته اس بچھڑے سے لپٹے ہوئے تھے کہ اس مرد خدا اور ہمدرد رہبر کی یہ قومی منطق اور روشن دلائل ان کے اوپر اثر انداز نہ ہوئے۔
انہوں نے صراحت کے ساتھ حضرت ہارونؑ کی مخالفت کا اعلان کیا اور "کہا" ہم تو اسی طرح اس گوسال کی پرستش کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ خود موسٰیؑ ہمارے پاس پلٹ کرآئیں ": ( قالو الن
نبرح عليه عا كفين حتٰى يرجع اليناموسٰی ۔ ؎1
خلاصہ یہ کہ انہوں نے ہمیشہ دھرمی نہ چھوڑی اور کہنے لگے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چلے گا کہ گزار پرستی کا سلسلہ اسی گوسالہ کے طرح جاری رہے گا۔ یہاں بنا
کہ موسٰیؑ لوٹ آئیں اور ان سے اس بات کا فیصلہ کرائیں ۔ ہوسکتا ہے وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر گؤسالہ کے سامنے سجدہ کریں خود کو زیادہ ہلکان نہ کرو اور ہمارا پیچھا چھوڑو۔ اسی طرح
انہوں نے عقل سے مسلمہ حکم بھی پاؤں تلے روند ڈالا اور اپنے رہبر کے جانشین کے فرمان کی بھی پرواہ نہ کی۔
لیکن جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے - اور قاعدہ بھی یہی ہے ـــــــ کہ ان حالات میں جب ہارون نے اپنی رسالت کو انجام دیا اور اکثریت نے اسے قبول نہ کیا تو آپ اس گنی چنی اقلیت
کے ساتھ کہ جو ان کی تابع بھی ان سے الگ ہوگئے اور ان سے دورسی اختيار کرلی کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ان کے ساتھ میل جول ان کے انحرافی طرز عمل کی تصدیق کی دلیل بن جائے۔ ؎2
سب سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں انحرافی تبدیلیاں صرف گنتی کے چند دنوں کے اندر اندر واقع ہوگئیں۔ جب موسٰی کو میعاد
گاہ کی طرف گئے ہوئے ۳۵ دن گزر گئے توسامری نے اپنا کام شروع کردیا اور بنی اسرائیل سے مطالبہ کیا وہ تمام زیورات جو انھوں نے فرعونیوں سے عاریتًا لیے تھے اوران کے غرق ہوجانے کے
بعد وہ انھیں کے پاس رہ گئے تھے انہیں جمع کریں چھتیسوں پنتیسویں اڑتیسویں دن انہیں ایک کٹھائی میں ڈالا اور پگلا کر اس سے گؤسالہ کا مجسمہ بنادیا اور انتالیسویں دن انہیں اس کی پرستش کی
دعوت دی اور ایک بہت بڑی تعداد (کچھ روایات کی بناء پر چھ لاکھ افراد) نے اسے قبول کرلیا اور ایک روز بعد یعنی چالیسں روز گزرنے پر موسٰیؑ واپس آگئے۔
لیکن بہرحال ہارون تقریبًا بارہ ہزار ثابت قدم مومنین کی اقلیت کے ساتھ اس قوم سے الگ ہو گئے جبکہ جاہل اور ہٹ دھرم اکثریت اس بات پر آمادہ ہوچکی تھی کہ انہیں قتل کردے.
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "نبرح" "برح" کے مادہ سے زائل ہونے کے معنی میں ہے اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ " برح الخفاء" کاجملہ آشکار واضح ہونے کے معنی میں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خفا کا زائل ہونا
، ظہور کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے اور چونکہ " لن" کا معنی نفی ہے تو "لن نبرح" کا مفہوم یہ ہے کہ ہم مسلسل یہ کام کرتے رہیں گے۔
؎2 مجمع البیان زیر بحث آیہ سے ذیل میں.