۴۔ایک سوال کاجواب
اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ۴۳فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ۴۴قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَنْ يَطْغَىٰ ۴۵قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ ۴۶فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ ۴۷إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَىٰ مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ۴۸
تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے. اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خوف زدہ ہوجائے. ان دونوں نے کہا کہ پروردگار ہمیں یہ خوف ہے کہ کہیں وہ ہم پر زیادتی نہ کرے یا اور سرکش نہ ہوجائے. ارشاد ہوا تم ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی رہا ہوں. فرعون کے پاس جاکر کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے فرستادہ ہیں بنی اسرائیل کو ہمارے حوالے کردے اور ان پر عذاب نہ کر کہ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی نشانی لے کر آئے ہیں اور ہمارا سلام ہو اس پر جو ہدایت کا اتباع کرے. بیشک ہماری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ تکذیب کرنے والے اور منہ پھیرنے والے پر عذاب ہے.
۴۔ایک سوال کاجواب : ممکن ہے کہ بعض ۔لوکوں کے ذہن میں اوپروالی آیات کے مطالعہ سے یہ سوال پیداہوکہ موسٰی (علیه السلام) ان خدائی وعدوں کے باوجود پریشان ،شک اور تشویش سے کیوں دوچار ہوئے ۔یہاں تک کہ خدا نے انہیںصراحت کے ساتھ کہاکہ جاؤ ہرجگہ تمہارے ساتھ ہوں ،تمام باتوں کوسنتاہوں اورتمام چیزوں کودیکھتاہوں اورپریشا نی کی کوئی بات نہیں ہے ۔
اس سوال کاجواب اس بات سے واضح ہوجاتاہے کہ یہ ماموریت حقیقت میں بہت ہی سنگین تھی موسٰی (علیه السلام) بظاہرایک چرواہے تھےاب انہیںصرف اپنے بھائی کو ساتھ لے کرایک خودسرطاقتوراور سرکش آدمی سے جنگ کرنے کے لیے جانا تھا کہ جس کے قبضہ میں اس زمانے کے عظیم ترین طاقتور وسائل جمع تھے اورعجیب بات یہ ہے کہ علم انہیںیہ ملاکہ پہلی دعوت خود فرعون سے شروع کریںنہ یہ کہ پہلے دوسروں کے پاس جائیں اورلشکر اور یارومددگار فراہم کریں بلکہ پلاوار ہی فرعون کے دل پرکریں،یہ ماموریت واقعاً ایک بہت ہی پچیدہ اور انتہائی زیادہ مشکل تھی علاوہ ازیں ہم جانتے ہیں کہ علم و آگاہی کے مراتب و مدارج ہونے ہیںاکثر ایساہوتاہے کہ انسان ایک بات کویقینی طورپر جانتاہے لیکن وہ چاہتاہے کہ علم الیقین اور عینی اطمینان کے مرحلے میں پہنچ جائے ،جیساکہ حضرت ابرہیم (علیه السلام) نے معاد پرقطعی ایمان ہونے کے باوجود خداسے یہ درخوست کی کہ اسی دنیامیں مردود ں کے زندہ ہونے کا منظر میری آنکھوں کو دکھاتاکہ زیادہ سے زیادہ اطمینان قلب پیداہو ۔