۲۔ سرکشوں کے خلاف جنگ
اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي ۳۱وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي ۳۲كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا ۳۳وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا ۳۴إِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيرًا ۳۵قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ ۳۶
اس سے میری پشت کو مضبوط کردے. اسے میرے کام میں شریک بنادے. تاکہ ہم تیری بہت زیادہ تسبیح کرسکیں. اور تیرا بہت زیادہ ذکر کرسکیں. یقینا تو ہمارے حالات سے بہتر باخبر ہے. ارشاد ہوا موسٰی ہم نے تمہاری مراد تمہیں دے دی ہے.
۲۔ سرکشوں کے خلاف جنگ :اس میں کوئی شک نہیں کہ فرعون میں بہت سی انحرافی باتیں موجود تھیں وہ کافرتھا، بت پرست تھا،ظالم اور بیداد تھا، گرتھوغیر ہ لیکن قرآن نے ان تما م ا نحراف میں سے صرف اس کے”طغیان “ کاذکرکیاہے : ( انہ طغٰی ) کیونکہ خدا کے فرمان سے طغیان اور سرکشی کی روح ان تما م انحرافات کانچوڑ اور ان سب باتوں کی جامع ہے ۔
ضمنی طور پر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے مرحلے میں انبیاء کاہدف و مقصد طاغوتوں اور اور متکبر ین سے مقابلہ ہوتاہے اور مارکسیٹ مذہب کاجوتجزیہ کرتے ہیں یہ بات اس کے سراسر خلاف ہے کیونکہ وہ مذہب کوطغیان گروں اور استمال ر پیشہ لوگوں کاخدمت گار سمجھتے ہیں ۔
ممکن ہے ان کی یہ بااتیں خود ساختہ غیرمعقول مذاہب کے بارے میں صحیح ہو ں لیکن سچّے ابنیاء کی تاریخ ،مذاہب آسمانی کے بارے میں ان کے بے ہودہ خیالات کی پوری صراحت کے ساتھ سو فیصد نفی کرتی ہے ۔اس سلسلے میں موسٰی بن عمران کاقیام خاص طورپرایک شاہد ناطق ہے ۔