موسٰی ایک مخلص و برگریدہ پیغبر
وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا ۵۲وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا ۵۳
اور ہم نے انہیں کوسِ طور کے داہنے طرف سے آواز دی اور راز و نیاز کے لئے اپنے سے قریب بلالیا. اور پھر انہیں اپنی رحمت خاص سے ان کے بھائی ہارون علیھ السّلام پیغمبر کو عطا کردیا.
موسٰی ایک مخلص و برگریدہ پیغبر :
زیر نظر تین آیات حضرت موسٰی (علیه السلام) کی طرف ایک مختصر سااشارہ کرتی ہیں ،جو حضرت ابراہیم کی ذایّت میں سے ہیں اور ان بزرگوار پر ہونے والی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں ،جنہونے ابراہیم (علیه السلام) کے مسلک کی پیروی کرتے ہوئے اس کی تکمیل کی ۔
پہلے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :اپنی آسمانی کتاب میں موسٰی کو یاد کرو (واذکرفی الکتاب موسی ۔
اس کے بعد نعمتوں میں سے جو اللہ نے اس عظیم پیغمبر کو مرحمت فرمائی ہیں پانچ قسم کی نعمتوں کو بیان کیا گیاہے :
۱۔ وہ خداکی اطاعت اور نبدگی کی وجہ اس مقام کو پہنچاکہ ” پروردگار نے اسے خاص اور پاک بنادیا (انہ کان مخلصا) ۔اوروہ یقینی طورپر جو شخص ایسے مقام پرفائز ہوجا ئے وہ انحراف اور آلودگی کے خطرے سے محفوظ رہتا ہے ، چونکہ شیطان خداکے بندوں کو منحرف کرنے پر اپنے تمام تر اصرار کے باوجود اعتراف کرتاہے کہ وہ -- ” مخلصین “ کو گمرہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔
” قال فبعز تک لاغو ینھم اجمعین الاعبادک منھم المخلصین “
اس نے کہا تیری عزّت کی قسم تیرے تیرے مخلص بندوں کے سوا ان سب کوگمراہ کروں گا ۔(ص ٓ۸۲،۸۳)
۲۔وہ بلند مرتبہ پیغمبر اور رسول ہے ۔(وکان رسولابنیا) ۔
حقیقت رسالت یہ ہے کہ کسی کے ذمہ کوئی کام کیا جائے اور وہ اس ماموریت کی تبلیغ اور ادائیگی کا پابند ہوا ور یہ وہ مقام ہے کہ جوان تمام انبیاء کو حاصل تھا ، جو دعوت دینے پر مامور تھے ۔
” نبیا“ کا یہاں اس پیغمبر کے بلند مقام اور رفعت شان کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ لفظ در اصل ” نبوہ “ (بروزن نغمہ ) جو مقام کی رفعت و بلندی کے معنی میں ہے ،اسسے لیا گیا ہے البتہ اس کی دوسری اصل بھی ہے کہ جو ” نباء“ سے خبر کے معنی میں ہے ،کیونکہ پیغمبر خداوندتعالی کی طرف سے خبر حاصل کرتا ہے اوردوسروں کو خبردیتا ہے ،لیکن یہاں پہلامعنی زیادہ مناسب ہے ۔
۳۔بعد والی آیت موسیٰ(علیه السلام) کی رسالت کے آغاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے : ہم نے اسے کوہ طورکی دائیں طرف سے بلند آواز میں پکارا (ونادیناہ من جانب الطورالایمن ) ۔
اس تاریک اور پروحشت رات میں جبکہ وہ اپنی زوجہ کے ساتھ مدین کے بیان نوں سے گزرکر مصر کی طرف جارہے تھے ، تو ان کی زوجہ کو وضع حمل کی تکلیف شروع ہوگئی او روہ خود ایک شدید سردی کی لپیٹ میں آگیا اورایک آگ کے شعلے کی تلاش میں جارہاتھا کہ یکایک اوراچانک دور سے ایک بجلی چمکی اورایک آواز آئی اور موسیٰ(علیه السلام) کو رسالت کافرمان دیاگیا اوریہ اس کی زندگی کا عظیم ترین افتخار اور شیریں ترین لمحہ تھا ۔
۴۔علاوہ ازیں ”ہم نے اسے قریب کیا (پناتقرب بخشا) اور اس سے گفتگوکی “ (وقربناہ نجیا)(۱) ۔
خداوندتعالیٰ کی نداایک نعمت تھی اوران سے تکلم و گفتگو دوسری نعمت ۔
اور آخر میں ہم نے اپنی رحمت سے اسے ہارون جیسابھائی عطاکیا کہ جو خود بھی پیغمبر تھا ۔
(ووھبنالہ من رحمتنااخاہ ھارون نبیا)
۱۔”نجی “ ”مناجی “ کے معنی میںوہ شخص ہے کہ جو دوسرے کے کان میں کوئی بات کہے ، یہاں خدانے پہلے موسیٰ کو دورکے فاصلے سے صدادی ، ان کے نزدیک آنے کے بعد ان سے ” بخوی “ (سرگوشی) میں بات کی ۔(یہ بات کہے بغیر وضح ہے کہ خدانہ زبان رکھتا ہے اور انہ مکان بلکہ وہ فضامیں صوتی امواج پیداکردیتا ہے اور موسیٰ(علیه السلام) جیسے بندے کے ساتھ گفتگوکرتا ہے ) ۔