Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ابراھیم (علیه السلام) کی موثر منطق :

										
																									
								

Ayat No : 44-45

: مريم

يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِيًّا ۴۴يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا ۴۵

Translation

بابا شیطان کی عبادت نہ کیجئے کہ شیطان رحمان کی نافرمانی کرنے والا ہے. بابا مجھے یہ خوف ہے کہ آپ کو رحمان کی طرف سے کوئی عذاب اپنی گرفت میں لے لے اور آپ شیطان کے دوست قرار پاجائیں.

Tafseer

									ابراھیم (علیه السلام) کی مئوثر منطق :


حضرت عیسٰی (علیه السلام) کی سرگزشت کے کچھ حصے کاتعلق ان کی والدہ جناب مریم (علیه السلام) کی زندگی کے ساتھ تھا گزشتہ آیات میں اس کا ذکر تھا اس کے بعد زیربحث آیا ت اور آگے آنے والی آیات میں توحید کے ہیرو ابراہیم خلیل (علیه السلام) کی زندگی کے کچھ حصہ کا تذکرہ ہے ۔ان آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ اس عظیم پیغمبر کی دعوت بھی ۔تمام رہبران الٰہی کی دعوت کی طرح ۔نقطئہ توحید ہی سے شروع ہوئی ہے ۔
پہلی آیت میں قرآن کہتا ہے : اس کتاب (قرآن میں ابراہیم کو یاد کرو ( واذکرفی الکتاب ابرھیم ) ۔
کیونکہ وبہت ہی سچامردتھا ، خداکی تعلیمات و رامین کی تصدیق کرنے والاتھا اور خداکاپیغمبر تھا (انہ کان صدیقا نبیا ) ۔
لفظ ”صدیق “ صدق سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور ایسے شخص کے معنی میں جو بہت ہی سچا ہو ۔بعض کہتے ہیں کہ ایسے شخص کے معنی میں ہے جو کبھی جھوٹ نہ بولتا ہو ، یا اس سے بالاتر ، جو جھوٹ بول ہی نہ سکتا ہو کیونکہ ۔اس نے ساری عمر سچ بولنے کی عادت نبالی ہے ۔نیز بعض اسے شخص کے معنی میں سمجھتے ہیں کہ جس کا عمل اس کے قول اور اعتقاد کی تصدیق کرتا ہو ۔
لیکن صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام تقریب ایک ہی معنی کے طرف لوٹتے ہیں ۔
بہر حال یہ صفت اس قدر اہمیت رکھتی ہے کہ اوپر والی آیت میںصفت نبوت سے بھی پہلے بیان ہوئی ہے ۔گویایہ نبوت کو قبول کر نے کی لیاقت پیدکی ہے اس کے علاوہ پیغمبر وں اور وحی الٰہی کے حاملین میں جو عمدہ ترین اور بہتر صفت ہونی جائیے و ہ یہی ہے کہ وہ خداواند تعالے کے فرمان کو بے کم و کاست خداکے بندوں تک پہنچادیں ۔
اس کے بعد ان کی اپنے با پ آزر کے ساتھ گفتگو بیان کی گئی ہے ۔

ِْْْْْْٓٓٓٓٓٓٓبیان کی گئی ہے۔(یہاں باپ سے مراد چچا ہے اور لفظ ”ابا “ جیساکہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ۔عربی لغت میں اور کبھی باپ کے معنی میں اور کبھی چچا کے معنی میں آتا ہے )(۱) ۔
قرآن کہتا ہے : اس وقت جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا : اے بابا تو ایسی چیز کی عبادت کیو ں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے اور نہ ہی دیکھتی ہے اور نہ ہی تیر ی کوئی مشکل حل کر سکتی ہے (اذ قال یاابت لم تعبد مالایسمع و لایبصر ولایغنی عنکا شیئا ) ۔
یہ مختصر اور زور دار بیا ن شرک اور بت پرستی کی نفی کرنے والی دلیلو ں میں سے ایک بہترین دلیل ہے ۔کیوں کہ انسا ن کو پر ور دگار عالم کی معرف کے بارے میں ابھارنے والی چیزوں میں سے ایک نفی و ہ نقصا ن کااحتمال ہے اسے علمائے عقائد ” دفع ضررمحتمل“ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
ابراہیم کہتے ہیں کہ تو ایسے معبود کی طرف کیوں جاتا ہے جونہ صر ف یہ تیری مشکل کو حل نہیں کرسکتا ہے ،بلکہ وہ تو اصلاسننے اور دیکھنے کی قدرت ہی نہیں رکھتا ۔
دوسرے لفظوں میں عبادت ایسی ہستی کی کرنی چاہیئے کہ جو مشکلات حل کرنے کی قدرت رکھتی ہو ، اپنے عبادت کرنے والے اور اس کی حاجت و ضروریات کو جانتی ہو ۔دیکھ سن سکتی ہو لیکن ان بتوں میں یہ تمام باتیں مفقود ہیں ۔
در حقیقت ابرہیم (علیه السلام) یہاں اپنی دعوت اپنے چچاسے شروکرتے ہیں ،کیونکہ قریبی رشتہ داروں میں اثر و نفوذ پیداکرنا زیادہ ضروری ہے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس بات پر مامور ہوئے تھے کہ پہلے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت جیسا کہ سورہ شعرء کی آیہ ۲۱۴میں ہمُ پڑ ھتے ہیں ؛ 
وانذر عشرتک الاقربین ۔
یعنی اپنے قریبیوں کو خوف خداسے ڈراؤ ۔
اس کے بعد ابراہیم واضیح مبطق کے ساتھ اسے دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس امر میں ان کی پیرو ی کرے ۔فرماتے ہیں : اے بابا! مجھے وہ علم ودانش ملی ہے جو تجھے نصیب نہیں ہوئی ۔اس بناپر تو میری پیروی کر اور میری بات سن ( یاابتا انی قد جائنی من العلم مالم یاتک فاتبعنی ) ۔
میری پیروی کرتاکہ میں تجھے سیدھی راہ کی طرف اشارہ کرو ں ( اھد ک صراطاسویا ) ۔
میں نے وحی الہی کے ذریعہ سے بہت علم و آگہی حاصل کی ہے اور میں پورسے اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہو ں کہ میں خطاکے راستے پرنہیں چلوں گا تجھے بھی ہرگز غلط راستے کی دعوت نہیں دوگا ۔میں تیر ی خوش بختی و سعادت کا خواہاں ہوں تو میری بات مان لے تا کہ فلاح و نجات حاصل کرسکے اور اس صراط مستقیم کوطے کرکے منزل مقصود تک پہنچا جائے ۔
اس کے بعد اس ا ثباتی پہلوکو منفی پہلوں اوران آثار کے ساتھ ملاتے ہوئے ،کہ جو اس دعوت پر حسرت ہوتے ہیں ،کہتے ہیں : اے بابا !شیطان کی پرستش نہ کر کیونکہ شیطان ہمیشہ خدائے رحمن کانافرمان رہا ہے ۔( یاابت لاتعبد الشیطان الشیطان کان للرحمن عصیا ) ۔
البتہ ظاہر ہے کہ یہاں عبادت سے مراد شیطان کے لیے سجدہ کرنے اور انما ز روزہ بجالانے والی عبادت نہیں ہے بلکہ اطاعت اور اس کے حکم کی پیروی کرنے کے معنی میں ہے اور یہ بات خود ایک قسم کی عبادت شمار ہوتی ہے ۔
عبادت و پرستش کے معنی اس قدر وسیع ہیں کہ کسی کی باتوں کو عمل کرنے کی نیت سے سننا ےک بھی اس کے معنی میں شامل ہے اور کسی کے قانون کو قابل نفاذ سمجھنا بھی اس کی ایک طرح کی عبادت و پرستش شمار ہوتی ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک حدیث میں اس طرح نقل ہوا ہے ۔
من اصغی الیٰ ناطق فقد عبادہ فان کان الناطق عن اللہ عذّوجل فقد عبد اللہ وان کان الناطق فقد ابلیس :
جو شخص کسی بات کرنے والے کی بات کی طرف سے بول رہاہے تو اس نے خداکی عبادت کی ہے اور اگر بولنے والاابلیس کی طرف سے بول رہاہے تو (پھر اس سننے والے نے ) ابلیس کی عبادت کی ہے (۲) ۔
بہر حال ابرہیم ۔اپنے چچاکو اس حقیقت کی تعلیم دیناچاہتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں بغیر کسی قانون یاراستے نہیںچل سکتا (اب قانون یا راستے صرف وہی ہیں ) یاقانون الہی اور صراط مستقیم ہے اور یا نافرمانی و گمراہ شیطان کاقانون اور راستہ ہے ۔چاہیئے کہ انسان اس سلسلے میں ٹھیک طرح سے سوچ بچار کرے اور اپنے لیے پختگی کو اختیار کرے ، اور اپنی خیر و صلاح کو تعصبات اور ندھی تقلید سے دور رہتے ہوئے نظر ہیں لائے ۔
ایک مرتبہ اسے شرک اور بت پرستی کے برے تنائیج کی طرف سے تجھ پر عذاب آئے اور تو اولیا ئے شیطان میں سے ہوجائے ۔
(یا ابت انی اخاف ان یمسک عذاب من الرحمن فتکون للشیطان ولیا ء) ۔
یہاں حضرت ابراہیم (علیه السلام) اپنے چچاکو آزر کے سامنے یہ تعبیر بہت ہی جاذب نظر اور عہد ہ ہے کہ ایک طرف اسے مسلسل ”یاابت“ (اے بابا) کے خطاب سے کہ جو ادب و احترم کی نشانی ہے مخاطب کیے جارہے ہیں اور دوسرے طرف ” ان یمسک “ کا جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ ابرہیم (علیه السلام) آزر کو معمولی سی تکلیف پہنچنے سے بے چین و پریشاہیں ،تیسری طرف سے ”عذاب من الرحمن “ کی تعبیر اس نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تیرامعاملہ اس شرک وبت وپرستی کی وجہ سے اس مقام تک پہنچ چکاہے کہ وہ کہ جس کی حمت عامہ سب چیزوں پر چھائی ہوئی ہے تجھ پر ناراض ہے اور وہ تجھے عذاب دے گا ، اب دیکھ کہ تو کس قسم کا و حشت ناک کام انجام دے رہا ہے ۔
چوتھی طرف سے اسے متوجہ کیا کہ تیرا یہ ایک ایسا کام ہے کہ جس کا انجام شیطان کی دوستی کے زیر سایہ قرار پانا ہے ۔

 

 

۱۔اس بار ے میں تفصیل بحث پانچویں جلد ص ۲۴۸تفسیر نمونہ (اردو ترجمہ ) سورہ انعام کی آیہ ۷۴ میں ہو چکی ہے ۔
۲۔سفینتہ البحار ، جلد ۲ ، ص ۱۱۵ (مادہ عبدہ ) ۔