قیامت ،حسرت کا دن
مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ ۖ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ۳۵وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ ۳۶فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ مَشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ ۳۷أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا ۖ لَٰكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ۳۸وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ۳۹إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ ۴۰
اللہ کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا فرزند بنائے وہ پاک و بے نیاز ہے جس کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے. اور اللہ میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے لہذا اس کی عبادت کرو اور یہی صراط همستقیم ہے. پھر مختلف گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور ویل ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے کفر اختیار کیا اور انہیں بڑے سخت دن کا سامنا کرنا ہوگا. اس دن جب ہمارے پاس آئیں گے تو خوب سنیں اور دیکھیں گے لیکن یہ ظالم آج کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں. اور ان لوگوں کو اس حسرت کے دن سے ڈرائیے جب قطعی فیصلہ ہوجائے گا اگرچہ یہ لوگ غفلت کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں اور ایمان نہیں لارہے ہیں. بیشک ہم زمین اور جو کچھ زمین پر ہے سب کے وارث ہیں اور سب ہماری ہی طرف پلٹا کر لائے جائیں گے.
قیامت ،حسرت کادن :
مذکورہ صفات کے ساتھ اپنا تعارف کرانے کے بعد حضرت عیسی (علیه السلام) نے مسئلہ توحید پر خاص طورپر عبادت کے سلسلہ میں تاکید کی اور کہا :
خدامیرااور تمہارا پروردگار ہے ،پس تم اسی کی عبادت وپرستش کرو، یہی سیدھی راہ ہے (وان اللہ ربی وربکم فاعبدوہ ھٰذاصراط مستقیم )(۱) ۔
اس طر ح حضرت عیسٰی (علیه السلام) نے اپنی زندگی کی ابتداء سے ہی ہر قسم کے شرکے اور دویادوسے زیادہ خداؤں کی عبادت پرستش سے مبارزہ کیا اور ہر جگہ توحید پر تاکید کی ۔ اس بناپر تثلیث کی عنوان کے عیسائیوں کے درمیان آج جو کجھ نظر آتاہے یہ قطعی طورپر حضرت عیٰسی (علیه السلام) کے بعد پیداہونے والی بدعت ہے ۔ہم اس کی تفصیل سورہ نساء کی آیت ۱۷۱کے بیا ن کرچکے ہیں (۲) ۔
اگرچہ بعض مفسرین نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ یہ جملہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے بیان ہواہو اس معنی میں کہ خدانہیں اس آیت میں حکم دیتاہے کہ لوگوں کو توحید فی العباد ة کی دعوت دو اور اس کاصراط مستقیم کے عنوان سے تعارف کراؤ ۔
لیکن قرآن مجید کی دوسری آیت اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ جملہ حضرت عیسٰی (علیه السلام) کی گفتگو اور ان کی گزشتہ باتوں کاآخر ی حصہ ہے ۔سورہ زخرف کی آیہ۶۳ تا ۶۴ میں ہم پڑ ھتے ہیں ۔
”ولماجاء عیسٰی بالبینات قال قد جئتکم بالحکمة ولابین لکم بعض الذی تختلف
ون فیہ فاتقواللہ واطیعون ان اللہ ھوربی وربکم فاعبدوہ ھذاصراط مستقیم “۔
”جس وقت عیسٰی (علیه السلام) ان کے لیے واضح اور روشن دلائل لے کر آئے میں تمہارے لیے حکمت ودانش لے کر آیا ہوں ، میں اس لیے آیاہوں کہ جن باتوں میں تم اختلاف رکھتے ہو ان میں سے بعض امورکی تمہار ے لیے و ضاحت کروں ، پس تم خداسے ڈرواور میری اطاعت کرو خداہی میرااور تمہاراپروردگار ہے ، پس تم اسی کی عبادت کرو ،یہی سیدھی راہ ہے ۔
یہاں ہم تقریبا عین وہی جملہ دیکھ رہیں کہ جو عیٰسی (علیه السلام) کی زبان سے نقل ہوا ہے ۔(اسی قسم کا مضمون سورہ آل عمران کی آیہ ۵۰ ،۵۱میں بھی آیا ہے ) ۔
لیکن اس تمام تاکید کے باوجود حضرت عیسٰی (علیه السلام) توحید اور خدائے یگانہ کی پرستش کے بار ے میں کیا کرتے تھے ”ان کے بعد ان کے پیروکار وں میں سے کئی گروہوں نے مختلف راستے اختیار کر لیے “ (اور خاس طور پر عیسٰی (علیه السلام) کے بارے میں بھی انہونے کئی قسم کے عقائد تراش لیے ) (فاختلف الاحزاب من بینھم ) قیامت کے عظیم دن کے مشاہد ے سے ان کی حالت پر کہ جنہوں نے کفر و شرک کی راہ اختیار کیوائے ہے ۔
(فویل للذین کفروامن مشھدیوم عظیم ) ۔
مسیحت کی تاریخ بھی اس بات کی اچھی طرح گواہی دیتی ہے کہ انہونے حضرت عیسٰی (علیه السلام) کے بعد ان کے بارے میں اور مسئلہ توحید کے بارے میں کس حد تک ا ختلاف کیا ۔یہ اختلافات اس قدر بڑ ھ گئے کہ ” قسطظین “ شہنشاہ روم نے ” اسقفون “ (مسیحت کے بڑے بڑے علماء ) کا ایک اجتماع بلایا کہ جوان کے تین مشہور تاریخی اجتماعات میں سے ایک تھا کہ جس کے ارکان کی تعداد دو ہزار ایک سو ستر تک جاپہنچی یہ سب کے سب ان کے بزرگوں میں سے تھے ۔جب حضرت عیسٰی(علیه السلام) کے بارے میں بحث شروع ہوئی تو موجود علماء نے اس کے بارے میں بالکل مختلف نظریات کااظہار کیا اور ہر کا اپناایک الگ ہی عقیدہ تھا ۔
ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ خداہے کہ جو زمین پر نازل ہوا ہے ۔ ایک گروہ کواس نے زندہ کیا اور بہت سے لوگوں کو موت دے دی اس کے بعد آسمان کی طرف صعورکرگیا ہے ۔
بعض دوسروں نے کہا کہ وہ خداکا بیٹا ہے ۔
بعض نے کہا کہ وہ تین اقانیم (تین مقدس ذوات میں سے ) ایک تھا ،باپ ، بیٹا ،اوررح القدس (باپ خدا ۔بیٹا خدا اور رو ح القدس ) ۔
بعض نے یہ کہا کہ وہ ان تین میں کاتیسراہے ۔خدامعبود ہے ،وہ بھی معبود ہے اور اس کی ماں بھی معبود ہے ۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بندئہ خداہے اور اس کا بھیجا ہوا رسول ہے ۔
دوسرے فرقوں نے بھی الگ الگ باتیں کیں ۔اس طرح ان عقائد میں سے کسی پر بھی اتفاق نظرحاصل نہ ہو ا سب سے بڑی تعداد ایک عقیدہ ے کے طرفداروں کی ۳۰۸تھی کہ جس کو بادشاہ نے نسبتا اکثریت کے عقیدہ کے عنوان سے قبول کیا اور اس کا قانونی ورسمی عقیدے کے عنون سے دفاع کرنا شروع کردیا اورباقی عقیدہ ں کو چھوڑ دیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ توحید کاعقیدہ جس کے طرفداروں کی تعداد بہت ہی کم تھی اقلیت میں قرار پایا (۳) ۔
چونکہ اصل توحید سے انحراف ،عیسائیوں کا سب سے بڑاانحرف شمار ہوتا ہے ، مندرجہ بالاآیت کے ذیل میں ہم نے دیکھا کہ خداوندتعالیٰ انہیں کس طرح سے تہدید کرہاہے ، کہ وہ قیامت کے عظیم دن میں ،سب لوگوں کو موجود گی میں اور پروردگار کی عدالت عادلہ کے سامنے بہت برے اور درد ناک انجام سے دوچار ہو ں گئے ۔(۴) ۔
بعد والی آیت میدان قیامت میں ان کی حالت کو بیان کررہی ہے ۔اور یہ کہتی ہے کہ ” اس دن جب ہمارے پاس آئیں گے تو ان کے کیسے سننے والے کان اور کیسی دیکھنے والی آنکھیں ہو جائیں گی ۔لیکن یہ ظالم آج جبکہ دنیا میں ہیں تو کھلی گمراہی میں ہیں (اسمع بھم والبصریوم یا ننالکن الضالمون الیوم فی ضلال مبین ) ۔
یہ بات واضیح ہے کہ نشاة آخر،میں آنکھو ں کے سامنے سے تمام پردے ہٹ جائیں گے ،اور کانوں کی سننے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوجائے گی کیونکہ ،وہاں حق کے آثار دنیاکی نسبت کئی گنازیادہ واضیح و آشکار ہوں گے ۔اصولی طورپر اس عدالت اور اعمال کے آثارکامشاہدا انسان کی آنکھوں اورکانو ں سے مختلف کے پردے دورکردے گا ۔یہاں تک کہ دل کے اندھے بھی آگاہ اور داناہوجائیں گے ،لیکن کیا فائدہ کیونکہ یہ بیداری اور آگاہ ہی ان کی حالت کے لیے مفید نہ ہوگی ۔
بعض مفسرین نے ” لکن الظالمون الیوم فی ضلال مبین “ کے جملے میں لفظ”الیوم “ قیامت کے دن کے معنی میں لیا ہے کہ جس سے آیت کامفہوم یہ بن جاتاہے : وہ وہا ں بنیاد شنواہوجائیں گے لیکن یہ بینائی اور شنوئی اس دن ان کی حالت کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگی اور وہ واضیح گمراہی میں ہوں گے ۔
لیکن پہلی تفسیر زیادہ صیح معلوم ہوتی ہے (۵) ۔
ایک مرتبہ بھر اس روز بے ایمان اور ستمگر لوگوں کے انجام کو مد نظر رکھتے ہو ئے قرآن کہتا ہے : ان دل کے اندھوں کو ، جو مختلف میں پڑ ے ہوئے ہیں اور یمان نہیں لاتے روز حسرت (قیامت کے دن ) سے کہ جس میں تمام چیزیں اختتام کو پہنچ جائیں گی اور تلافی اور بازگشت کے لیے کوئی راستہ نہیں ہوگا “ڈرا ( وانذر ھم یوم الحسرة اذقضی الامروھم فی غفلة وھم لایومنون ) ۔
ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید قیامت کے دن کئی نامہ ہیں ۔ان میں سے ایک ”یوم الحسرة“ ہے کیونکہ اس دن نیکوکار بھی افسوس کریں گے کہ اے کاش ہم زیادہ سے زیادہ نیک اعمال بجالاتے ہوئے اور بد کار بھی افسوس کریں گے کیونکہ نظروں کے سامنے تمام پردے ہٹ جائیں گے اور ۔ہر شخص پر اعمال کے حقائق اور ان کے نتائج آ شکار ہوجائے گے ۔
بعض مفسرین نے ” اذقضی الامر “ کے جملے کو قیامت کے دن حساب کتاب ، جزاوسزااور تکلیف و ذمہ داری کے اموں کے اختتام پزیر ہونے سے مربوط سمجھاجاتا ہے اور بعض ۔اسے دنیا کے فناہونے کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔اس تفسیر کے مطابق آیت کامعنی اس طر ح ہوگا : انہیں حسرت کے دن سے ڈراؤ وہ وقت جب کہ دنیاان کی غفلت اورایمان نہ لانے کی حالت میں اختتام کو پہنچ جائے گی ( لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ،خاص طورپر جبکہ ایک روایت میں ” اذ قضی الامر“ کی تفسیر امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل ہوئی ہے :ای قضی علی اھل الجنة بالخلود فیھا ،وقضی علی اھل الناربالخلود فیھا
یعنی خداوندعالم اہل جنت کے لیے (جنت میں ) اور اہل جہنم کے لیے (جہنم میں) ہمیشہ ہمیشہ رہنے کاحکم صادر فرمایا گا (۶) ۔
آخر ی زیر بحث آیت تمام ظالموں اور ستمگر وں کو خبر دور کررہی ہے کہ یہ اموال جو ا ن کے قبضے میں ہیں ،ہمیشہ ان کے پاس نہیں رہیں گے ، جیساکہ خودان کی زندگی جاودانی اور ہمیشہ رہنے والی ہے بلکہ ان سب کااصلی مالک خداہے لہذافرماتا ہے : ہم زمین کے بھی اور تمام ان لوگوں کے بھی جواس پر رہتے ہیں وارث ہوجائیں گے اور آخر کاوہ سب کے سب ہماری طرف پلٹ کرآئیں گے ۔(انانحن نرث الارض ومن علیھا والینایرجعون ) (۷) ۔
حققت میں یہ آیت سورئہ مومن کی آیہ ۱۶کی ہم وزن ہے کہ جو کہتی ہے :
لمن الملک الیوم للہ الواحد القھار
آج (قیامت کے دن ) کس کی ملکیت و حکومت ہے ، ایک اکیلے غالب و مسلط خداکی ۔
اگر کوئی شخص اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہو اور اس کا مقصد ہو ، تو پھر وہ کس لیے ان اموال اور تمامادی چیزوں کے لیے کہ جو چند روزکے لیے ہمیں امانت کے طورپر سپرد کی گئی ہیں ،اور بہت جلدی ہمارے ہاتھ سے نکل اجائیں گی ،ظلم وستم کرے گا اور حقیقت یادوسرے لوگوں کے حقوق کو پامال کرنے کو جائز سمجھتے گا ۔
۱۔جملہ بندی اور ترکیب کے لحاظ سے یہ جملہ عٰیسی (علیه السلام) کی گزشتہ باتوں پر عطف ہے جو ” قال انی عبداللہ “شروع ہوئی ہیں اور اس جملہ پر ختم ۔
۲۔تفسیرنمونہ جلد ۴ ،ص ۱۷۶، (اردوترجمہ ) کی طر ف رجوع فرمائیں ۔
۳۔ تفسیر فی ظلال ، جلد ۵ ، ص ۴۳۶۔
۴۔”مشہد “ اوپر والی آیت میں ممکن ہے کہ مصدر معمی ”مشہور “کے معنی میں ہو یااسم مکان زمان ،محل یازمانہ شہود کے معنی میں ہو ہر چند ان کے معالی مختلف ہیں ،لیکن نتیجہ کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔
۵۔” الف “ ”الیوم “میں ”عہد“کاالف لام ہے پہلی تفسیر کے مطابق عہد حضور ی” اور دوسری تفسیرنے مطابق “ عہد ذکر ہے ۔
۶۔مجمع البیان آیہ بالاکے ذیل میں ۔
۷۔آیایہ آیت قیامت کی طرف اشارہ ہے یا دنیاکے فناہونے کے وقت کی طر ف ؟ اگر یہ قیامت کی طرف اشارہ ہوتو یہ ”والینا یرجعون “ (ہماری طرف پلٹائے جائیں گے ) کے جملے کے ساتھ مطابقت رکھتی ۔اور اگر دنیاکے ختم ہونے کے وقت کی طرف اشارہ ہو تو ” ومن علیھا “
(وہ کہ جو زمین کے اوپر ہیں )کے جملے کے ساتھ مناسب نہیں رکھتی کیونکہ دنیا کے ختم ہونے کے وقت تو زمین پر کوئی زندہ نہیں ہو گا کہ جس کے بارے میں ” من علیھا“ کی تعبیر درست ہو شاید اسی وجہ سے بعض مفسرین مثلا علامہ طباطبائی نے اس جملہ کایہ معنی کیا ہے ۔
” انانحن نرث عنھم الارض “ ہم ا ن کی طرف سے زمین کے وارث ہوں گے ، لیکن یہ تفسیر بھی کچھ خلاف ظاہرہے کیونکہ ”من علیھا “ کاواؤ کے ساتھ عطف ہواہے ۔ایک اور احتمال جو اس مقام پرموجود ہے وہ یہ ہے کہ ” نرث “ کامفعول کبھی تو وہ شخص ہوتا ہے جو مال چھوڑ جاتا ہے ،مثلا: ” وورث سلیمان داؤد “ اور کبھی وہ اموال ہوتے ہیں کہ جو میراث کے طور پر باقی رہ جاتے ہیں ،مثلا:نرث الارض “ اور اوپر والی آیت میں دونوں تعبیریں آئی ہیں ۔