کیا خدا کا بیٹا ممکن ہے ؟
ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ ۳۴مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ ۖ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ۳۵
یہ ہے عیسٰی بن مریم کے بارے میں قول حق جس میں یہ لوگ شک کررہے تھے. اللہ کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا فرزند بنائے وہ پاک و بے نیاز ہے جس کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے.
کیا خدا کا بیٹا ممکن ہے ؟
قرآن مجید سابقا آیات میں عیسی (علیه السلام) کی پیدائش کے وقعہ کی ہی عمدہ اور روشن واضح تصویر کشی کرنے کے بعد ان شرک آمیز باتوں اور خرافات کی نفی کرتے ہوئے جو ان لوگوں نے عیسی (علیه السلام) کے بارے میں کہی ہیں اس طرح کہتا ہے یہ ہے”عیسی (علیه السلام) ابن مریم (علیه السلام) “ (ذالک عیسی ابن مریم ) ا س عبارت میں ان کے مریم کا بیٹاہونے پر خصوصیت کے ساتھ تاکیدکرتا ہے۔تاکہ یہی بات خداکابیٹا ہونے کی نفی کی تمہید اور مقدمہ بن جائے ۔
اور اس کے بعد مزید کہتاہے ” وہ قول حق ہے کہ جس میں انہونے شک کا ظہار کیا ہے اور ہر ایک نے انحراف کی راہ اختیار کرلی ہے “ ۔(قول الحق الذی فیہ یمترون ) (۱) ۔
یہ عبارت در حقیقت حضرت عیسی (علیه السلام) کے بارے میں تمام گزشتہ مطالب کی صحت پر ایک تاکید ہے اور یہ کہ ان مطالب میں تھوٹی سی بھی غلطی نہیں ہے ۔
باقی رہی یہ بات کہ قرآن جویہ کہتا ہے کہ : وہ اس بارے میں شک و شبہ میں ہیں ، یہ حضرت مسیح (علیه السلام) کے دوستوں اور دشمنوں یا دوسرے الفاظ میں عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف اشارہ ہے ۔ایک طرف سے ایک گمراہ گروہ نے ان کی دوالدہ کی پاکیز گی میں شک و شبہ کیا ، اوردوسری طرف سے ایک گروہ نے ان کے ایک انسان ہونے میں ظہار شک کیا ، یہاں تک کہ پھر یہی گروہ مختلف شعبوں اور قسموں میں تقسیم ہو گیا ۔بعض انہیںصرحت کے ساتھ خداکا بیٹا سمجھ لیا (روحانی و جسمانی اعتبارسے حقیقی بیٹا ) اور ا س کے ساتھ تین خداؤں اور تثلیث کا مسئلہ اٹھا ۔
بعض نے مسئلہ تثلیث کو عقلی طورپر ناقابل فہم کہہ کر یہ اعتقاد رکھ لیا کہ اسے تعبد اقبول کرلیا جائے اور بعض نے اس کی منطقی توجیہہ کے لیے ب بنیاد باتوں پر ہاتھ مارا ۔خلاصہ یہ کہ جب وہ حقیقت کو نہ پاسکے ،یا جب انہوں نے حقیقت کو اختیار کرنا چاہا تو افسانے کی راہ پر چل نکلے (۲) ۔
اگلی آیت میں قرآن صرحت کے ساتھ کہتا ہے : خداکے لیے یہ امر ہرگز شائستہ نہیں ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو ،وہ ایسی باتوں سے پاک اور منزہ ہے (ماکان للہ ان یتخذ من ولد سبحانہ )
بلکہ وہ تو جس وقت بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اور اسے حکم دیتا ہے تو کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجا تی ہے ۔(اذاقضی فانمایقول لہ کن فیکن ) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صاحب فرزند ہونا ۔۔جیسا کہ عیسائی خداکے بارے میں خیال کرتے ہیں ۔ پروردگار عالم کے مقام مقدس سے مطابق نہیں رکھتا ،کیونکہ ایک طرف تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس کا جسم ہو ،دوسر ی طرف سے محدود یت اور تیسری طرف سے احتیاج ، خلاصہ یہ ہے کہ ان کے عقیدے کا نتیجہ خداوند تعالیٰ کو اس کے مقام سے کھینچ کر عالم مادہ کے قوانین کے ماتحت لانااور اسے ایک ۔ضعیف و محدود مادی وجود کے زمرہ میں قرار دینا ہے ۔
وہ ایک خداکو جواس قدر قدرت وتوانائی رکھتا ہے کہ اگر وہ ارادہ کرے تو اس وسیع و عریض عالم کہ جس میں ہم رہ ہے ہیں کی مانند ہزار بار عالم مخص اس کے ایک فرمان اور صرف اشارہ سے عالم ظہور میں آجائیں ۔کیا یہ بات شرک نہیں ہے اور توحید و خداشناسی سے انحراف نہیں ہے کہ ہم اسے ایک انسان کی طرف صاحب فرزند سمجھ لیں اور وہ بھی ایسا بیٹا کہ جو باپ کا ہم مرتبہ اور ہم پلہ ہو ۔
”کن فیکن “ کی تفسیر جوقرآن مجید کی آیات میں آٹھ مواقع پر آئی ہے ، امر خلقت میںخداوند تعالیٰ کی قدرت کی وسعت اوراس کے تسلط و حاکمیت کی بہت ہی عمدہ تصویر ہے فرمان ”کن “کی تعبیر سے زیادہ مختصر نہیں ہوسکتا ہے اور کوئی نتیجہ ”فیکون “ سے زیادہ جامع نظر نہیں آتا ۔(
خصوصا ”فاء تفریح“ کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو اس مقام پر فوری عمل درآمد کو ظاہری کرتی ہے یہاں تک کہ اس امقام پر فاء تفریح فلاسفہ کی تعبیر کے مطابق تائخر زمانی پر بھی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ اسی تائخر رتی کو ینان کرتی ہے جو معلول کے علت پر ترتیب میں پائی جاتی ہے (غورکیجئے گا ) ۔
فرزند کی نفی یعنی خداسے قسم کے احتیاج کی نفی :
اصولی طورپر زندہ موجودات کو اولادو فرزندکی احتیاج کس لیے ہے ؟ کیا اس کے علاوہ بھی کوئی اور وجہ ہوسکتی ہے کہ ان کی عمرمحدود ہوتی ہے اور اس غرض سے کہ ان کی نسل منقطع نہ ہونے اور ان کی حیات نوعی جاری وساری رہے ؛لہذاضروری ہے اس بات کی ان سے اولاد پیداہو ۔اجتمائی نقطئہ نظر سے ایسے کام جن میں انسانی قوت کے اکٹھا مل کر سرانجام دینے کی ضرورت ہوتی ہے اس بات کا زیادہ سبببنتی ہے کہ انسان کا تعلق فرزند کے ساتھ قائم رہے ۔
اس کے علاوہ جذباتی و نفسیاتی ضرورتیں اور انتہائی کی وحشت کودورکرنے کی احتیاج اسے اس کا م کی دعوت دیتی ہے ۔
لیکن اس خدا کے بارے میں کہ جو ازلی وا بدی ہے ، جس کی کوئی انتہانہیں ہے اور نہ جذباتی و نفسیاتی احتیاج کا مسئلہ اس کی پاکی ذات کے لیے کوئی مفہوم رکھتا ہے ، کیا یہ امورتصورکیے جاسکتے ہیں ؟
اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ لوگ جو خداکے لیے فرزند کے قائل ہیں انہوں نے اوپر قیاس کرلیا ہے اور انہوں نے اس میں بھی وہی باتیں سمجھ لی ہیں کہ جن باتو ں کو وہ اپنے اندرسمجھتے ہیں حالانکہ ہماری کوئی بھی چیز خداکی مانند نہیں ہے (لیس کمثلہ شیء)(۳) ۔
پہلی ہجرت کے بارے میں ایک اہم تایخ نکتہ :
پہلی ہجرت جو اسلام میںواقع ہوئی وہ مسلمانو کے ایک اچھے خاصے گروہ کی حبشہ کی طرف ہجرت تھی ۔یہ گروہ مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھا ۔انہونے مشرکین قریش کے چنگل سے رہائی پانے اور اسلام کے آئندہ کے پروگروموں پرعمل در آمد اور زیادہ سے زیادہ تیاری کرنے کے لیے حبشہ کے قصہ سے مکہ کو پھوڈدیا ، اور جیسا کہ ان کا اندازہ تھا ،وہاں پر انہیںیہ موقع مل گیا کہ امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارسکیں اوراسلامی پروگراموں اور خودشازی کے کاموں میں مشغول ہوسکیں ۔
یہ خبر مکہ میں قریش کے سردارں تک بھی پہنچ گئی ۔انہونے اس مسئلہ کو اپنے لیے خطرہ ے کا لازم سمجھانہونے محسوس کیا کہ حبشہ مسلمانو ں کے لیے ایک پناہ گاہ بن جائے گا اور شاید وہ قوت و طاقت حاصل کرنے کے بعد مکہ ی طرف پلٹ آئیں ،اور ان کے لیے بڑی مشکلات پیداکردیں ۔
صلاح و مشہورہ کے بعد انہونے یہ فیصلہ کیا کہ فعال مردوں میں سے فوافراد کو منتخب کرکے نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ وہاں پر مسلمانوں کے وجود کے خطرات کے بارے میں نجاشی کی تفصیل سے آگاہ کریں ۔اور انہیں اس اطمینان و سکون کی سرزمین سے باہر نکال دیں ۔
قریش نے عمروبن عاص اور عبداللہ ابن ابی ربیعہ کو نجاشی اور اس کے لشکر بڑے بڑے افسروں کے لیے بہت سے ہدیوں اور تحفوں کے ساتھ روانہ کیا ۔
امسلمہ زوجہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم فرماتی ہیں کہ ہم جب سرزمین حبشہ میں پہنچے تو ہم نے نجاشی کا حسن سلوک دیکھا ۔ہمیں کسی قسم کی مذہبی پابندی نہیں تھی ،کوئی ہمیں تکلیف نہیں پہنچاتا رتھا ،لیکن قریش نے اس مسئلہ سے آگاہ ہونے کے بعد دوآدمیوں کو بہت سے ہدایاو تحائف کے ساتھ بھیج کر انہیں یہ حکم دیا تھا کہ خود نجاشی سے ملاقات کرنے سے پہلے اس کے بڑے بڑے منصب دارواں سے ملاقات کرنا اور ن کے ہدیے اور تحائف انہیں پیس کرنا ،اس کے بعد نجاش کے ہدایا اور تحائف کو اس کی خدمت میں پیش کرنا اور اس سے یہ تقاضاکرنا کہ مسلمانوں کو ا ن سے اکوئی بات کیے بغیر ان کے سپرد کردیں ۔
انہونے اس پروگرام پر پوراپوراعمل کیا ۔پہلے نجاشی کے منصب داروں سے مل کر انہیں یہ بتایا کہ :چند بے خوف جوانوں کے ایک گروہ نے تمہارے سرزمین میں پناہ لے لی ہے ،انہونے اپبا دین و ایمان ترک کردیا ہے اور تمہارے دین میں بھی شامل نہیں ہوئے ۔انہونے ایک نئے دین کو بد عت کے طورپر جاری کیا ہے جو ہماری اور تمہارے لیے غیرمعروف ہے ۔
اشراف قریش نے ہمیں تمہارے پاس بھیجاہے تاکہ ہم ان کے شرکو ا س ملک سے کم کردیں اور انہیں ان کی قوم کی طرف واپس لوٹا دیں ۔
انہونے منصب داروں سے یہ وعدہ لے لیا کہ جس وقت نجاشی ان سے مشورہ کر ے تو وہ اس نظر یے کی تائید کریں گے اور اس سے یہ کہیں گے کہ ان کی قوم ان کے حالات سے زیادہ بہتر طورپر آگاہ ہے ۔
اس کے بعد انہونے نجاشی کے دربارمیں باریابی حاصل کی اور وہی پر باتیں اس سے بھی کہیں ۔
ان کا یہ پروگرم بڑی خوشی اور اسلوبی کے ساتھ آگے بڑ رہاتھا اور ا ن کی یہ پرفریب باتیں ان بکثرت ہدایا و تحائف کے ساتھ سبب بنی کہ نجاشی کے مصاحبین نے بھی ان کی تائید و تصدیق کردی ۔
اچانک ورق الٹا اور نجاشی سخت غضب ناک ہو ااور کہنے لگا خداکی قسم میں ایسا کام نہیں کروں گا ۔یہ ایک ایسا گروہ ہیں کہ جمہوں نے میری پناہ لی ہے ،اور انہونے میرے ملک کوا س کے امن و امان کی و جہ سے دوسرے ملکوں پر ترجیح دی ہے ۔جب تک میں دعوت نہ دے لوں اور تحقیق نہ کرلوں میں تمہاری اس تجویز پر عمل نہیں کروں گا ۔
اگر واقعامعاملہ اسی طرح ہواکہ جیسے یہ کہتے ہیں تو پھر میں انہیں ان دو افراد کے حوالے کردوں گا او ر انہیں اپنے ملک سے نکال دوں گا ورنہ میری پناہ محبت میںخیروخوبی کے ساتھ زندگی بسر کریں ۔
جناب امسلمہ فرماتی ہیں کہ نجاشی نے کسی کو مسلمانوں کے پاس بھیجانہونے باہم مشورہ کیا کہ نجاشی سے کیاکہاجائے ؟ان سب کی رائے یہ ٹھہری کہ وہ صحیح صحیح حقیقت بیان کردیں اور پیغمبر اکرم صل ا للہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور اسلام کے پروگرام کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیں پھر جو کچھ ہوتا ہے ہوتا رہے ۔
وہ دن کہ جو اس دعوت کے لیے مقرر کیا گیا تھا ، وہ ایک عجیب وغریب د ن تھا ۔عیسائی بزر گ اور مسیح علماء بھی جو اپنے ہاتھوں میں مقدس کتابیں لیے ہوئے تھے اس مجلس میں مدعوکیے گئے تھے ۔
نجاشی نے مسلمانوں کی طرف ر خ کیا اور ن سے پوچھا ،یہ کونسا دین ہے کہ تم اپنی قوم سے بھی الگ ہوگئے ہوا ور ہمارے دین میں بھی دخل نہیں ہوئے ہو؟
جناب جعفربن ابی طالب نے سلسلہ کلام شروع کیا او ر کہا : اے بادشاہ ! ہم ایک ایساگروہ تھے جو جہالت اور بے خبری میں زندگی بسر کرتے تھے ،بتوں کو پوجتے تھے مردار کاگوشت کھانا اور بزرے اور سنگین کام انجام دیتے تھے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے بدی کرتے تھے ،ہمسایوں کے ساتھ براسلوک کرتے تھے ،طاقتور کمزور ں کو کھاجاتے تھے ،خلاصہ یہ کہ ہماری بدبختی بہت زیادہ تھی ۔یہاں تک کہ خداوند تعالیٰ نے ہم ہی میں سے ایک پیغمبر کو مبعوث فرمایا کہ جس کے نسب کو ہم اچھی طر ح سے پہچانتے تھے ،اور اس کی صداقت ،امانت اور پاکیزگی پر ہم ایمان رکھتے تھے اس نے ہمیںخدائے یگانہ کی طرف دعوت دی اور ہمیں حکم دیا کہ ہم پتھر اور لکڑی کی پرستش کو جنہیں ہمارے بڑے پوجا جرتے تھے چھوڑ دیں ۔
اس نے ہمیں سچ بولنے ،ادائے امانت ،صلہ رحمی ،ہمسایوں سے نیکی کرنےکی کرنے کی ہدایت کی اور محرمات ، خونریزی ، برے اور شرمناک اعمال ،جھوٹی گواہی ،یتیم کامال کھانے اور پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانے سے منع کیا ہے ۔
اس نے ہمیںیہ بھی حکم دیا ہے کہ ہم خدائے یگانہ کی پرستش کریں،کسی چیز کو اس کا شریک قرارنہ دیں ، نماز اور روزہ بجالائیں اور زکوة اداکریں ۔
ہم اس پر یمان لے آئے ہیں اور ہم نے اس کے احکام پر عمل کیا ہے ،لیکن ہماری قوم نے پر ظلم اور زیادتی شروع کردی ، ہمیں تکلیف اور رنج پہنچائے اور اصرارکیا کہ ہم توحید کاعقیدہ چھوڑ کرشرک کی طر ف پلٹ جائیں اور اپنی اسی سابقہ گناہ آلود زندگی میں مشغول ہوجائیں ۔
جب انہوں نے ہمیں ہرطرح سے تنگ کیا اور ستایا تو ہم آپ کے ملک کی طرف آگئے اور ہم نے اس بات کو پسند کیا کہ ہم آپ کے ہمسائے بن جائیں ،اس امید کے ساتھ کہ کوئی شخص یہاں ہم پر ظلم ستم نہیں کرے گا ۔
نجاشی فکرمیں پڑ گیا ۔جعفر کی طرفر ر خ کیا اور کہا : کیااس شخص کی آسمانی کتاب کی کوئی چیز تجھے یاد ہے ۔
جناب جعفرنے کہا : ہاں !
نجاشی نے کیا :مجھے سنائی ۔
جناب جعفر نے جو عقل و دانش اور دولت ایمان کے مالامال تھے ،قرآن مجید کے مناسب تریں حصہ ّکو جو کہ سورئہ مریم کی یہی ابتدائی آیات تھیں منتخب کیا ۔اور نجاشی اور تمام حاضریں کے لیے ، کہ جو سب کے سب دین مسیح کے پیروتھے تلاو ت کیا ۔
کھیعص ذکررحمةربک عبد ہ ز کریا واذکرفی الکتاب مریم اذانتبذت من اھلھامکانا شرقی ۔
جس وقت جناب جعفر (علیه السلام) نے ان آیات کی بہتریں لحن کے ساتھ پاک دل کے ساتھ قرائت کی تو ا س کا نجاشی پر یہ اور بزگ مسیح علماء کی روح پر اتنا اثر ہو اکہ ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ؤں کی لڑ یاں بہنے لگی اور ان کے رخسار وں پر گرنے لگیں ۔
نجاشی نے ان کی طرف ر خ کر کے کہا :خدالی قسم ! جو کجھ عیسی مسی(علیه السلام)ح لے کر آئے تھے وہ اور یہ آیات ان سب کاایک ہی سر چشمہ اور ایک ہی منبع نورہے ۔جاؤ اور راحت اور آرام کے ساتھ زندگی بسر کرو،خداکی قسم میں ہر گز آپ لوگو ں کو ان دو افراد کے حوالے نہیں کروں گا ۔
اس کے بعد قریش کے قاصد وں نے نجاشی کو مسلمان نوں کی طرف سے بد گمان کرنے کے لیے اور تدبیر یں بھی کیں لیکن وہ اس کی بیدارروح پر اثر انداز نہ ہوسکیں تو وہ مایوس اور ناامید ہوکر وہاں سے پلٹ وٴئے ،ان کے ہدیے ان کو واپس کردئے اور ان سے معذرت چاہی (۴) ۔
۱۔اس جملے کی ترکیب میں مفسیرین نے بہت اختلاف کیا ہے ،لیکن ادبی لحاظ سے اور گزشتہ آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو بات زیادہ صحیح دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ” قول الحق “ مفعول ہے فعل محذوف کااور ” الذی فیہ یمترون “ اس کی صفت ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا -” اقوال قول الحق الذی فیہ یمترون “ ۔میں حق کی بات کہتا ہوں جس میںوہ شک کرتے ہیں ۔
۲۔نصاری کی تثلیث اور اس بارے میں جو خرافات انہونے گھڑے ہیں ان کی مزید وضاحت کے لیے تفسیر نمونہ کی چوتھی جلد ،سورہ نساہ کی آیہ۱۷۱،ص ۱۷۶،(اردوترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔
۳۔” کن فیکن “ کے معنی کے بارے میں اور خداسے نفی کے دلائل سے متعلق ہم جلداول سورہ بقرہ کی آیہ ۱۱۶اور ۱۱۷کے ذیل میں بھی بحث
کر چکے ہیں ۔
۴۔ اقتباس از سیرت ابن ہشام ،جلد اول ، ص ۳۵۶۳۶۱۔