۳۔باکرہ سے بچہ پیداہونا
فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ۲۷يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ۲۸فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا ۲۹قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ۳۰وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ۳۱وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا ۳۲وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ۳۳
اس کے بعد مریم بچہ کو اٹھائے ہوئے قوم کے پاس آئیں تو لوگوں نے کہا کہ مریم یہ تم نے بہت بفِا کام کیا ہے. ہارون کی بہن نہ تمہارا باپ بفِا آدمی تھا اور نہ تمہاری ماں بدکردار تھی. انہوں نے اس بچہ کی طرف اشارہ کردیا تو قوم نے کہا کہ ہم اس سے کیسے بات کریں جو گہوارے میں بچہ ہے. بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے. اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز اور زکوِٰکی وصیت کی ہے. اور اپنی والدہ کے ساتھ حَسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور ظالم و بدنصیب نہیں بنایا ہے. اور سلام ہے مجھ پر اس دن جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھایا جاؤں گا.
۳۔باکرہ سے بچہ پیداہونا : مذکورہ بالاآیات سے ایک یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کیا علمی لحاظ سے یہ بات ممکن ہے کہ اباپ کے بغیر بچہ پیدا ہو ۔کیا حضرت عیسٰی (علیه السلام) کا صرف اکیلی ماں سے پیداہونے کا مسئلہ اس بارے میں سائنس والوں کی تحقیقات کے مخالف نہیں ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ یہ کام معجزانہ طورپر ظہور پذیر ہو تھا ،لیکن موجووہ زمانے کا علم اور تحقیق اس قسم کے امر کے امکان کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کے ممکن ہونے کی تصریح کرتا ہے ۔
خاص طورپر نرکے بغیربچہ پیداہونا بہت سے جانوروں میں دیکھاگیا ہے اس بات کی طرف ترف توجہ کرتے ہوئے نطفے کے انعقاد کا مسئلہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے اس امر کے امکان کو عمومی حیثیت سے ثابت کرتا ہے ۔
”ڈاکٹر الکیس کارل “ مشہور فرانسی فریالوجسٹ اور حیات شناس اپنی کتاب ”انسان موجود ناشناختہ “ میں لکھتا ہے :
جس وقت ہم اس بارے میں غورکرتے ہیں کہ تولید مثل میں ماں باپ کاکتنا حصّہ ہے تو ہمیں ” لوب ”اور “ باٹایون “کے تجربوں کو بھی نظر میں رکھنا چایئے کہ قور باغہ کے باردر نہ ہوتے ہوئے چھوٹے سے تخم کو سپر ماٹوز اکے دخل کے بغیر ہی خاص ٹکنیک کے ذریعہ ایک جدید قورباغہ کو وجود میں لایا جاسکتا ہے ۔
اس ترتیب سے کہ ممکن ہے کہ کیمسٹری یافزکس کے ایک عامل کو ” نرسیل “ کاجانشین بنادیا جائے لیکن ہر حالت میں ہمیشہ ایک عامل کا مادہ کاوجود ضروری ہے ۔
اس بناپر وہ چیز کہ جو سائنسی لحاظ سے بچے کے تولد میں قطعیت رکھتی ہے وماں کے نطفہ (اردل ) کاوجود ہے ورنہ نرکے نطفہ (سپرماٹوزا) کی جگہ پردوسراعامل اس کا جانشین بنایا جاسکتا ہے ۔اسی بناپر نرکے بغیر بچے کی پیدائش کا مسئلہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو آج کی دنیا میں ڈاکٹر وں کے نزدیک قابل قبول قرار پاچکی ہے ،اگر چہ ایسااتفاق شاذونادرہی ہوتا ہے ۔
ان سب باتوں سے قطع نظر یہ مسئلہ خداوندتعالیٰ کے قوانین آفرینش کے سامنے ایسا ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
ان مثل عیسٰی عنداللہ کمثل اٰدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکو ن :
عیسٰی (علیه السلام) کی مثال خداک نزدیک آدم جیسی ہے کہ اسے مٹی سے پیداکیا پھر اس کو حکم دیا کہ ہوجاتو وہ بھی ایک کامل موجود ہوگیا ۔(اٰل عمران ۔۵۹) ۔
یعنی یہ خارق عادت اس خارق عادت سے زیادہ نہیں ہے ۔