Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2۔ماں کامقام

										
																									
								

Ayat No : 27-33

: مريم

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ۲۷يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ۲۸فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا ۲۹قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ۳۰وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ۳۱وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا ۳۲وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ۳۳

Translation

اس کے بعد مریم بچہ کو اٹھائے ہوئے قوم کے پاس آئیں تو لوگوں نے کہا کہ مریم یہ تم نے بہت بفِا کام کیا ہے. ہارون کی بہن نہ تمہارا باپ بفِا آدمی تھا اور نہ تمہاری ماں بدکردار تھی. انہوں نے اس بچہ کی طرف اشارہ کردیا تو قوم نے کہا کہ ہم اس سے کیسے بات کریں جو گہوارے میں بچہ ہے. بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے. اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز اور زکوِٰکی وصیت کی ہے. اور اپنی والدہ کے ساتھ حَسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور ظالم و بدنصیب نہیں بنایا ہے. اور سلام ہے مجھ پر اس دن جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھایا جاؤں گا.

Tafseer

									2۔ماں کامقام : اگر چہ حضرت عیسٰی پروردگار عالم کے نافذکردہ فرمان سے ماں سے ،بغیر با پ کے پیداہوئے ۔لیکن یہ بات کہ مذکورہ بالاآیت میںوہ اپنے افتخار ات کو گنتے ہوئے ماں کے لیے نیکوکاری کاذکر کرتے ہیں ۔یہ بات ماں کے مقام اور رتبہ کی اہمیت پر ایک روشن دلیل ہے ضمنی طور پر یہ اس بات کی بھی نشان دہی ہے کہ یہ نومولود بچہ ایک معجزہ کے مطابق بول اٹھا ہے اس حقیقت سے اگاہ ہے کہ وہ انسا ن کے لیے ایک نمونہ ہے کہ جو صرف ماں سے پیداہوا ہے اوراس میں باپ کا دخل نہیں ہے ۔
بہر حال اگر چہ آج کی دنیا ں میں ماں کے مقام و مرتبہ کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے ،یہاں تک کہ (سال میں) ایک دن کو روزمادر (ماں کادن ) کے نام سے مخصوص کردیاگیا ہے ،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مشینی تمدن کی و ضع کچھ ایسی ہے کہ یہ ماں باپ کا اولاد سے ربط بہت ہی جلدی منقطع کردیتا ہے ۔اس طرح سے بڑ اہونے کے بعد ادلاد میں یہ رابطہ احساس بہت کم باقی رہتا ہے ۔
اس سلسلہ میں اسلام میں حیرت انگیز روایا ت ہیں جو مسلمانوں کو ماں کے مقام و مرتبہ کی اہمیت کے بارے میں بہت زیادہ و صیت کرتی ہیں ۔تاکہ صرف زبانی طورپر ہی نہیں بلکہ عملی طورپر بھی وہ اس سلسلہ میں کوشش کریں ۔
ایک حدیث ۔امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
یارسول اللہ من ابر؟ قال امک ،قال ثم من؟ قال اماک ،قال ثم من قال امک ،قال ثم من قال اباک ۔
اے پیغمبر خدا ! ئیں کس کے ساتھ نیکی کروں ۔آپ نے فرمایا :اپنی ماں سے عرض کیا اس کے بعد کس سے ؟ پھر فرمایا اپنی اماں سے ۔تیسری مرتبہ اس نے پھر عرض کیا اس کے بعد کس سے ؟ فرمایااپنی ماں سے ۔چوتھی مرتبہ جب اس سوال کودہرایا تو آپ نے فرمایا : اپنے باپ سے (1) ۔ 
ایک اور حدیث میںیہ منقول ہے کہ ایک نوجوان جہاد میں شرکت کے لیے پیغمبر کی خد مت میں حاضر ہو ا (شونکہ جہاد واجب عینی نہیں تھا اس لیے ) رسول اللہ نے فرمایا : 
الک والد ة قال نعم قال فالذمھافان الجنةتحت قدمھا 
کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ نے عرض کیا : جی ہاں ۔فرمایا : ماں کی خد مت میں رہو کیونکہ جنت ماؤں کے پاؤ کے قدموں کے نیچے ہے (2) ۔
اس میں شک نہیں کہ اگر ہم ان بے شمار زحمتوں کو ، جوماں حمل کے زمانے میں، وضع حمل تک پھر دودھ پلانے کے زمانے میں اور ۔دیکھ بھال کرنے میں اس کے بڑے ہونے تک ،برداشت کرتی ہے اورطرح طرح کے رنج اور دکھ میں راتوں کے جاگنے اوراس کی بیماریوں میںفرزند کے لیے کھلی آغوش کے ساتھ لگی رہنے کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو جا ئے گا کہ انسان اس راہ میں جس قدربھی وہ ماں کے حقوق کے بارے میں قرضدار ہے ۔
جاذب نظر بات یہ ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ جناب ام سلمہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا : 
تمام افتخار ات تو مردوں کے حصے میں آگئے بیچاری عورتوں کااناعزازات میں کیا حصہ ہے ، 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : 
بلی اذاحملت المرئة کانت بمنذلةالصائم القائم المجاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ فاذاو ضعت کان لھا من الایدری احد ما ھوالعظمتہ، فاذارضعت کان لھا بکل مصةکعدل عتق محرومن ولد اسمٰعیل فاذافرغت من رضاعہ ضرب ملک کریم علی جنبھا وقال استئانفی العمل فقدغفرلک :
ہاں( عورتیں بھی بہت سے اعزاز رکھتی ہیں) جس وقت عورت حاملہ ہوتی ہے تو وہ تمام مدت حمل میں روزہ دار ،شب زندہ داراورجان ومال کے ساتھ خداکی راہ میں جہاد کرنے والے کی منزلت میں ہوتی ہے او ر جس وقت اس اکاحمل وضع حمل ہوتا ہے ، اللہ اس قدر اجر دیتا ہے کہ کوئی شخص عظمت کی بناپر اس کی حدکو نہیں جانتا اور جس وقت وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو خداوند تعالیٰ بچے کی طرف سے ہر چوں سنے کے مقابلے میں اولاد ادسمعیل (علیه السلام) میں سے ایک خداکے مکرم فرشتوں میں سے ایک اس کے پہلوپر ہا تھ مارتاہے اور کہتا ہے کہ اپنے اعمال کونئے سرے سے شروع کرکیونکہ خداوند تعالیٰ نے تیرے سب گناہ بخش دیئے ہیں ۔(گویا تیرانامئہ عمل نئے سرے سے شروع ہورہاہے )(3) ۔
تفسیر نمونہ کی بار ہویں جلد میں سورئہ بنی اسرائیل کی آیہ ۲۳کے ذیل میں بھی ہم نے اس سلسلہ کی کچھ بحثیں کی ہیں ۔
۳۔باکرہ سے بچہ پیداہونا : مذکورہ بالاآیات سے ایک یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کیا علمی لحاظ سے یہ بات ممکن ہے کہ اباپ کے بغیر بچہ پیدا ہو ۔کیا حضرت عیسٰی (علیه السلام) کا صرف اکیلی ماں سے پیداہونے کا مسئلہ اس بارے میں سائنس والوں کی تحقیقات کے مخالف نہیں ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ یہ کام معجزانہ طورپر ظہور پذیر ہو تھا ،لیکن موجووہ زمانے کا علم اور تحقیق اس قسم کے امر کے امکان کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کے ممکن ہونے کی تصریح کرتا ہے ۔
خاص طورپر نرکے بغیربچہ پیداہونا بہت سے جانوروں میں دیکھاگیا ہے اس بات کی طرف ترف توجہ کرتے ہوئے نطفے کے انعقاد کا مسئلہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے اس امر کے امکان کو عمومی حیثیت سے ثابت کرتا ہے ۔
”ڈاکٹر الکیس کارل “ مشہور فرانسی فریالوجسٹ اور حیات شناس اپنی کتاب ”انسان موجود ناشناختہ “ میں لکھتا ہے :
جس وقت ہم اس بارے میں غورکرتے ہیں کہ تولید مثل میں ماں باپ کاکتنا حصّہ ہے تو ہمیں ” لوب ”اور “ باٹایون “کے تجربوں کو بھی نظر میں رکھنا چایئے کہ قور باغہ کے باردر نہ ہوتے ہوئے چھوٹے سے تخم کو سپر ماٹوز اکے دخل کے بغیر ہی خاص ٹکنیک کے ذریعہ ایک جدید قورباغہ کو وجود میں لایا جاسکتا ہے ۔
اس ترتیب سے کہ ممکن ہے کہ کیمسٹری یافزکس کے ایک عامل کو ” نرسیل “ کاجانشین بنادیا جائے لیکن ہر حالت میں ہمیشہ ایک عامل کا مادہ کاوجود ضروری ہے ۔
اس بناپر وہ چیز کہ جو سائنسی لحاظ سے بچے کے تولد میں قطعیت رکھتی ہے وماں کے نطفہ (اردل ) کاوجود ہے ورنہ نرکے نطفہ (سپرماٹوزا) کی جگہ پردوسراعامل اس کا جانشین بنایا جاسکتا ہے ۔اسی بناپر نرکے بغیر بچے کی پیدائش کا مسئلہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو آج کی دنیا میں ڈاکٹر وں کے نزدیک قابل قبول قرار پاچکی ہے ،اگر چہ ایسااتفاق شاذونادرہی ہوتا ہے ۔
ان سب باتوں سے قطع نظر یہ مسئلہ خداوندتعالیٰ کے قوانین آفرینش کے سامنے ایسا ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
ان مثل عیسٰی عنداللہ کمثل اٰدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکو ن :
عیسٰی (علیه السلام) کی مثال خداک نزدیک آدم جیسی ہے کہ اسے مٹی سے پیداکیا پھر اس کو حکم دیا کہ ہوجاتو وہ بھی ایک کامل موجود ہوگیا ۔(اٰل عمران ۔۵۹) ۔
یعنی یہ خارق عادت اس خارق عادت سے زیادہ نہیں ہے ۔
۴۔ نوزائیدہ بچہ کس طرح بات کرسکتا ہے؟ یہ بات کچھ کہے بغیر ظاہر ہے کہ معمول یہ ہے کہ کوئی توزائیدہ بچہ تو لہ کے ابتدائی گھنٹوں یا دنوں میں بات نہیں کرتا ، کیونکہ بات دماغ کی کافی نشونمااور اس کے بعد زبان و حنجرہ کے عضلات کابڑ ھنا اورانسان بدن کے مختلف اعضاء کی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کا محتاج ہے ۔اور ان امورکے لیے حسب معمول کئی مہینے گزرنے چاہیں تاکہ یہ بندر یج اور آہستہ آہستہ بچوں میںفرہم ہوں ۔
لیکن پھر کوئی عملی دلیل اس امرکے محال ہونے پر ہمارے پاس نہیں ہے صرف یہ ایک غیرمعمولی کا م ہے اورتمام معجزات اسی قسم کے ہوتے ہیںیعنی سب ہی غیر معمولی کام ہوتے ہیں نہ کہ محال عقلی ،اس عمل کی تشریح ہم نے انبیاء کے معجزات کی بحث میں کردی ہے ۔


۱۔ وسائل اشیعہ ، جلد ۱۵، ص ۲۰۷۔
2۔ جامع السعادات ،جلد ۲ص ۲۶۱۔
3 ۔ وسائل اشیعہ ،ج۱۵، ص ۱۸۵۔