Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔قرآن کا حسن بیان اور ولادت عیسی(علیه السلام)

										
																									
								

Ayat No : 27-33

: مريم

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ۲۷يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ۲۸فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا ۲۹قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ۳۰وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ۳۱وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا ۳۲وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ۳۳

Translation

اس کے بعد مریم بچہ کو اٹھائے ہوئے قوم کے پاس آئیں تو لوگوں نے کہا کہ مریم یہ تم نے بہت بفِا کام کیا ہے. ہارون کی بہن نہ تمہارا باپ بفِا آدمی تھا اور نہ تمہاری ماں بدکردار تھی. انہوں نے اس بچہ کی طرف اشارہ کردیا تو قوم نے کہا کہ ہم اس سے کیسے بات کریں جو گہوارے میں بچہ ہے. بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے. اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز اور زکوِٰکی وصیت کی ہے. اور اپنی والدہ کے ساتھ حَسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور ظالم و بدنصیب نہیں بنایا ہے. اور سلام ہے مجھ پر اس دن جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھایا جاؤں گا.

Tafseer

									۱۔قرآن کا حسن بیان اور ولادت عیس(علیه السلام)ی : قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت اس قسم لے اہم مسائل میں خصوصیت کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے دیکھیئے کس طرح قرآن اس قدر خرافات سے مخلوط اہم مسئلہ کو مختصر ، گہری ، زندہ ، پر معنی ، منہ بولتی اور ناطق عبارتوں کے ساتھ پیش کرتا ہے اس طرح کہ ہر قسم کی خرافات او ر بیہودہ باتوں کو اس سے علیحدہ اور ادورکردیتا ہے ۔
جاذب نظر بات یہ ہے کہ مذ کورہ بالاآیات میں سات صفات ، دواعمال اور ایک دعا کاذکر ہوا ہے ۔
سات صفات کی تفصیل یہ ہے : 
پہلی صفت : خداکا بندہ ہونا کہ جس کاذکر تمام اوصاف کی ابتدامیں ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی کا عظیم ترین مقام مقام عبودیت ہے ۔
دوسری صفت : اس کے بعد کتا ب آسمانی کاحامل ہونا ہے ۔
تیسری صفت : مقام نبوت ہے ( البتہ ہم جانتے ہیں کہ مقام نبوت کے لیے یہ بات لازم نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ آسمانی کتاب کا حامل ہو ) ۔
چوتھی صفت : مقام عبودیت ہے ( و رہبری کے بعد مبارک ہونے کا بیان ہے یعنی معاشرے کی حالت کے لیے مفید ہونے کو پیش کیاگیا ہے ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ مبارک کا معنی نفاع ہے (یعنی ازیادہ نفع مند ہونا ) ۔
پانچویں صفت :ماں کے لیے نیکو کار ی بیان کی گئی ہے ؛
چھٹی اور ساتویں صفت : جبار شقی نہ ہونا اور ان کے بجائے متواضع ، حق شناس اور سعادت مند ہونا ہے ۔
تمام کاموں میں سے صرف دو یعنی پر وردگار عالم کی طرف سے نماز و زکوة کی و صیت کے بیان پر انحصار کرتے ہیں اور یہ ان دونوں پر و گراموں اور کاموں کی انتہائی اہمیت کی وجہ سے ہے کیونکہ یہ دونوں کام خالق و مخلوق کے ساتھ ارتباکی رمز ہیں ۔ایک لحاظ سے تمام مذہبی پروگراموں کو انہیں دو میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے ۔کیونکہ ان میں سے بعض انسان کارشتہ مخلوق سے اور بعض خالق سے جوڑ تے ہیں ۔
اب ر ہ گئی وہ دعا کہ جو وہ اپنے لیے کرتے ہیں اور وہ التجاجو وہ اپنی زندگی کے آغاز میںخداسے کرتے ہیں یہ ہے : بارے خدایا ! ان تین دنوں کو میرے لیے سلامتی والاقرار دے اول ولادت کا دن ،دوسرت موت کا دن ، تیسرے وہ دن جبکہ قیامت میں مجھے زندہ ہونا ہے اور مجھے ان تینوں حساس مرحلوں میں امن وامان مرحمت فرما ۔)