Tafseer e Namoona

Topic

											

									  حضرت مسیح (علیه السلام) کی گہوارے میں باتیں

										
																									
								

Ayat No : 27-33

: مريم

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ۲۷يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ۲۸فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا ۲۹قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ۳۰وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ۳۱وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا ۳۲وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ۳۳

Translation

اس کے بعد مریم بچہ کو اٹھائے ہوئے قوم کے پاس آئیں تو لوگوں نے کہا کہ مریم یہ تم نے بہت بفِا کام کیا ہے. ہارون کی بہن نہ تمہارا باپ بفِا آدمی تھا اور نہ تمہاری ماں بدکردار تھی. انہوں نے اس بچہ کی طرف اشارہ کردیا تو قوم نے کہا کہ ہم اس سے کیسے بات کریں جو گہوارے میں بچہ ہے. بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے. اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز اور زکوِٰکی وصیت کی ہے. اور اپنی والدہ کے ساتھ حَسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور ظالم و بدنصیب نہیں بنایا ہے. اور سلام ہے مجھ پر اس دن جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھایا جاؤں گا.

Tafseer

									آخر کار حضرت مریم (علیه السلام) اپنے بچے کو گود میں لیے ہوئے بیابان سے آبادی کی طرف لوٹیں اور اپنی قوم اور رشتہ داروں کے پاس آئیں (فاتت بہ قومھا تحملہ ) ۔
جونہی انہونے ایک نومولود بچہ ان کی گود میں دیکھا تعجب کے مارے ان کا منہ کھلاکا کھلارہ گیا وہ لوگ کہ جو مریم (علیه السلام) کی پاکدامنی سے اچھی طرح واقف تھے اور ان کے تقویٰ و کرمت کی شہرت کو سن چکے تھے سخت پریشان ہوئے ۔یہاں تک کہ ان میں سے کچھ تو شک و شبہ میں پڑ گئے اور بعض ایسے لو گ کہ جو فیصلہ کرنے میں جلد باز تھے انہونے اسے بربھلاکہناشروع کردیا اور کہنے لگے اس بد کاری کے ساتھ تمہارے روشن ماضی کو بہت افسوس ہے اور صد افسوس اس پاک خاندان پر کہ جو اس طرح بد نام ہوا ۔ کہنے لگے اے مریم (علیه السلام) تو نے یقینابہت براکام انجام دیا ہے (قالوایامریم لقد جئت شیئافریا)(۱) ۔
بعض نے ان کی طرف رخ کیااور کہا : ” اے ہارون کے بہن تیراباپ تو کو ئی بڑ اآدمی نہیں تھا اور تیری ماں بھی بدکار نہیں تھی “ ۔
(یااخت ھورن ماکان ابوک امرا سوء وماکانت امک بغیا) ۔
ایسے پاک وپاکیزہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے ہم یہ تیر ی کیا حالت دیکھ رہے ہیں تونے اپنے باپ کے طریقہ اور ماں کے چلن میں کونسی بڑائی دیکھی تھی کہ تونے اس سے رو گردانی کی !
یہ بات کہ جو انہونے مریم (علیه السلام)سے کہی کہ ” اے ہارون کی بہن “ مفسرین کے درمیان مختلف تفاسیر کا موجب بنی ہے ، لیکن جو بات سب سے زیادہ صحیح نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہارون ایک ایساپاک و صالح آدمی تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے درمیان ضرب المثل ہوگیا تھا ۔
وہ جس شخص کا پاکیز گی کے ساتھ تعارف کروانا چہاتے تھے تو اس کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ ہارون کا بھائی ہے یا ہارون کی بہن ہے مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں اس معنی کو ایک مختصر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیاہے (۲) ۔
ایک حدیث میں کہ جو کتاب ”سعد العود “ میں آئی ہے اس میں ہے کہ پیغمبر اکرم نے مغیرہ کو (عیسائیوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے ) نجران بھیجاتو عیسائیوں کی ایک جماعت نے قرآن پر اعتراض کے طور پر کہا : کیا تم اپنی کتاب میںیہ نہیں پڑھتے ہو ”یااخت ھارون “ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہارون سے مراد حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے بھائی ہیں تو مریم (علیه السلام) اور ہاروکے درمیان تو بہت فاصلہ تھا ۔
مغیرہ چونکہ جواب نہ دے سکا ۔لہذاس نے اس بارے میں پیغمبر اکرم سے سوال کیا ، تو آپ نے فرمایا : 
تو نے ان کے جوب میں یہ کیوں نہ کہا کہ بنی اسرائیل کے درمیان یہ معمول تھا کہ نیک افراد کو انبیاء اور صالحین کے ساتھ نسبت دیاکرتے تھے (۳) ۔
اس وقت جناب مریم (علیه السلام) نے خدا وندتعالیٰ کے حکم سے خاموشی اختیار کی ،صرف ایک کام جو انہونے انجام دیا یہ تھا کہ اپنے نومولود بچے عیسٰی کی طرف اشارہ کیا (فاشارت الیہ) ۔
لیکن اس کام نے ان کے تعجباکو اور بھی بر انگینتحہ کردیا اورشاید ان میں سے بعض نے اس کو ان کے ساتھ ٹھٹھ کرنے پر محمول کیا اور وہ غصے میں آکر بولے : اے مریم ! ایساکام کرکے تو اپنی قوم کا مذاق بھی اڑارہی ہے ۔
بہر حال انہونے اس سے کہا : ہم ایسے بچے کے ساتھ کہ جو ابھی گہوارہ میں ہے کیسے باتیں کریں ۔(قالو اکیف نکلم من کان فی المھدصبیا) ۔
مفسرین نے لفظ ”کان“کے بارے میں کہ جو ماضی پر دلالت کرتا ہے اس مقام پر بہت بحث کی ہے لیکن ظاہر ا یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر یہ لفظ موجودوصف کے ثبوت و لزوم کے لیے ہے اور وہ واضح الفاظ میں انہونے جناب مریم (علیه السلام) سے یہ کہا ہم اس بچے سے کہ جو ابھی تک گہوارے میں ہے کیسے بات کریں ؟
قرآن مجیدکی دوسری آیات اس معنی پر شاہد ہیں مثلا: 
کنتم خیرامة اخرجت اللناس 
” تم بہترین امت ہو کہ جو انسان معاشرے کے فائدہ کے لیے وجود میں آئے ہو (آل عمران ،آےت۱۱۰) ۔
مسلمہ طورپر لفظ” کنتم “ (تم تھے ) یہاں پر ماضی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ اسلامی معاشرے کے لیے ان صفات کے تسلسل اور اثبوت کا بیان ہے ۔
اس کے علاوہ انہونے ” مھد“ (گہوارہ ) کے بار ے میں بھی بحث کی ہے ،کہ ابھی تک حضرت عیسٰی (علیه السلام) گہوارہ تک نہیں پہنچے تھے ، بلکہ آیات کا ظاہریہ ہے کہ حضرت مریم (علیه السلام) کے اس جمیعت کے پاس پہنچتے ہی ، جبکہ حضرت عیسٰی (علیه السلام) ان کی آغوش میں تھے ، ان کہے اور لوگوں کے درمیان باتیں ہوئیں ۔ 
لیکن لغت عربی میں لفظ -” مھد “ کے معنی کی طرف توجہ کرتے ہو ئے اس کے سوال کا جوب واضح ہوجاتا ہے ۔
لفظ ” مھد “ جیساکہ راغب مفردت میں کہتا ہے ایسی جگہ کے معنی میں ہے کہ جو بچے کے لیے تیار کی جاتی ہے ۔چاہے وہ گہوارہ ہو یا ماں کی گود یابستر اور مھد اور مھاددونوں ہی لغت میں (المکان المھد الموطاء):(آرام اور سونے کے لیے ) تیار کی ہو ئی اور بچھی ہوئی جگہ کے معنی میں ۔
بہر حال وہ لوگ اس کی یہ بات سن کرپریشان ہوگئے ، اور بلکہ شاید غضب ناک ہو گئے ۔جیساکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے سے یہ کہا کہ اس کا تمسخر او ر استہزاء کرنا ، جاوئہ عفت و پاکدامنی سے اس کے انحرف کی نسبت ہمارے لیے زیادہ سخت اور سنگین تر ہے ۔
لیکن یہ حات زیادہ دیرتک قائم نہ رہی ۔کیونکہ اس نومولود بچے نے بات کرنے کے لیے زبا ن کھولی اور کہا : میں اللہ کا بندہ ہو ں (قال انی عبداللہ ) اس نے مجھے آسمانی کتاب مرحمت فرمائی ہے ( (اٰتانی الکتاب ) اور مجھے پیغمبر قرار دیا ہے (وجعلنی نبیا ء) ۔
اور خدانے مجھے ایک بابرکت و جود قراردیا ہے ، خواہ میں کہیں بھی ہوں میراوجود بندوں کے لیے ہر لحاظ سے مفید ہے ( وجعلنی مبارکااینماکنت ) اور اس نے مجھے نماز پڑھتے رہنے اور زکوة دینے کی و صیت کی ہے ( واو صانی بالصلوة و الزکوٰة ماد مت حیا)
اور اس کے علاوہ اپنی والدہ کے بارے میں نیکوکار ، قدردائی کرنے والااور خیر خوہ قرار دیاہے ( و بر ابولدتی ) (۴) ۔
اور اس نے مجھے جبار وشقی قرار دیاگیا ہے (ولم یجعلنی جبار اشقیا)
ا”جبار “ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے لیے تو لوگوں پر ہر قسم کے حقوق کاقائل ہو ۔لیکن کسی دوسرے کے لیے اپنے اوپر کسی بھی حق کاقائل نہ ہو ۔ 
اس کے علاوہ ”جبار “ اس شخص کو بھی کہتے ہیں کہ جو غیض و غضب کے عالم میں لوگوں کو مارتا اور نابود کرتاہو ۔اور فرمان عقل کی پیروی کرتا ہے ہو یاوہ یہ چاہتا ہو کہ اپنی کمی اور نقص کو تکبیر اور بڑائی کے دعوے کے ذریعہ پوراکرے ۔یہ ساری کی ساری صفات ایسی ہیں جوہر زمانے کے طاغوتوں اور متکبر ین سے ظاہر ہوتی رہتی ہیں (۵) ۔
۵۔جبار کے بارے میں مزید و ضاحت اور اس سوال کے جواب کے لیے کہ کس طرح خداکی ایک صفت جبار ہے تفسیرنمونہ کی جلد نہم ص ۱۴۳(اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔
”شقی “ اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جو مصیبت و بلااور سزاکے اسباب اپنے لیے فراہم کرتا ہے او بعض نے کہا اس سے مراد ایساشخص ہے جو نصیحت قبول نہیں کرتا کہ یہ دونوں معانی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عیسٰی فرماتے ہیں : 
میرادل نرم ہے اور میں اپنے آپ کو اپنے نزدیک چھوٹاسمجھتاہوں (۶) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دونوںصفات جبارو شقی کا نقطئہ مقابل ہیں ۔
آخرمیںیہ نومولود کہتا ہے : ”خداکامجھ پر سلام و درود ہو اس دن کہ جب میں پید ا ہوا اور اس دن کہ جب میں مروں گا اور اس دن کہ جب میںزندہ کرکے اٹھایا جاؤ گا “۔(والسلام علی یوم ولد ت و یوم اموت و یوم البعث حیا ) ۔
جیساکہ ہم نے حضرت یحییٰ (علیه السلام) سے مربوط آیات کی شرح میں بیان کیا ہے ، یہ تین دن انسان کی زندگی میں ۔زندگی سازااور اخطرناک دن ہیں کہ جن میں سوائے لطف خداکے سلامتی میسر نہیں ہوتی ۔اسی لیے حضرت یحییٰ کے بارے میں بھی یہ جملہ آیاہے اور احضرت عیسٰی (علیه السلام) مسیح (علیه السلام) کے بارے میں بھی ،لیکن اس فرق کے ساتھ کہ پہلے موقع پر خداوندتعالیٰ نے یہ بات کہی ہے اور دوسرے موقع پر حضرت مسی(علیه السلام)ح نے یہ تقاضا کیاہے ۔

 

۱۔فری ۔کتاب مغردات میں راغب کے قول کی بناپر عظیم یا عجیب کے معنی میں ہے اور اصل میںفری کے مادہ سے چمڑے کی (چادر خراب کرنے کیلئے )پارہ پارہ کرنے کے معنی میں ہے ۔
۲۔نوراثقلین ،جلد ۳ ، ص ۳۳۳۔
۳۔نوراثقلین ، جلد ۳ ، ص ۳۳۳۔
۴۔”بر“ (باء پر زبر کے ساتھ ) نیکوکار شخص کے معنی میں ہے جبکہ ”بر “ (باء کی زیرکے ساتھ ) نیکوکاری صفت کے معنی میں ہے ۔اور اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ یہ لفط اوپر والی آیت میں مبارکا پر عطف ہے نہ کہ صلوٰة و زکوة پر اور نی الوقع معنی اس طرح ہے ’( جعلنی برابوالدتی “ (مجھے اپنی والدہ کے لیے نیکوکار قراردیا گیا ہے ) ۔
۶۔تفسیرفخرالدین رازی ذیل آیہ زیربحث ۔