۲۔ مریم (علیه السلام) نے موت کی تمناکیوں کی ؟
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا ۲۲فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا ۲۳فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا ۲۴وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ۲۵فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا ۲۶
پھر وہ حاملہ ہوگئیں اور لوگوں سے دور ایک جگہ چلی گئیں. پھر وضع حمل کا وقت انہیں ایک کھجور کی شاخ کے قریب لے آیا تو انہوں نے کہا کہ اے کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور بالکل فراموش کردینے کے قابل ہوگئی ہوتی. تو اس نے نیچے سے آواز دی کہ آپ پریشان نہ ہوں خدا نے آپ کے قدموں میں چشمہ جاری کردیا ہے. اور خرمے کی شاخ کو اپنی طرف ہلائیں اس سے تازہ تازہ خرمے گر پڑیں گے. پھر اسے کھائیے اور پیجئے اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی رکھئے پھر اس کے بعد کسی انسان کو دیکھئے تو کہہ دیجئے کہ میں نے رحمان کے لئے روزہ کی نذر کرلی ہے لہذا آج میں کسی انسان سے بات نہیں کرسکتی.
۲۔ مریم (علیه السلام) نے موت کی تمناکیوں کی ؟ اس میں شک نہیں ہے کہ خداوند تعالیٰ سے موت کا تقاضاکرنااچھاکام نہیں ہے لیکن کبھی انسان کی زندگی میں ایسے سخت حادثات بھی پیش آجاتے ہیں ک جس سے زندگی کا ذائقہ بالکل تلخ اور ناگوار ہو جاتا ہے خصوصاایسے مواقع پر کہ جہاں انسان ،مقدس مقاصد ےا اپنے شرف و حیثیت کو خطرے میں دیکھتا ہے اور دفاع کی طاقت نہیں رکھتا ،ایسے مواقع پر بعض اوقات روحانی اذیت سے رہائی کے لیے موت کا تقاضاکرتا ہے ۔
لیکن اس قسم کے انکار جو شاہد ہی مختصر سی مدت کے لیے صورت پذیر ہوئے تھے زیادہ دیرتک نہ رہے اور خداوند تعالیٰ کے دو معجزات یعنی پانی کا چشمہ پھوٹنے اور کھجورکا خشک درخت بارآور ہوتے دیکھا تو افکار برطرف ہو گئے ،اور اطمنان و سکون کا نور ان کے دل پر چھاگیا ۔