Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔حضرت مریم (علیه السلام) کی مشکلات میں تربیت

										
																									
								

Ayat No : 22-26

: مريم

فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا ۲۲فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا ۲۳فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا ۲۴وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ۲۵فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا ۲۶

Translation

پھر وہ حاملہ ہوگئیں اور لوگوں سے دور ایک جگہ چلی گئیں. پھر وضع حمل کا وقت انہیں ایک کھجور کی شاخ کے قریب لے آیا تو انہوں نے کہا کہ اے کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور بالکل فراموش کردینے کے قابل ہوگئی ہوتی. تو اس نے نیچے سے آواز دی کہ آپ پریشان نہ ہوں خدا نے آپ کے قدموں میں چشمہ جاری کردیا ہے. اور خرمے کی شاخ کو اپنی طرف ہلائیں اس سے تازہ تازہ خرمے گر پڑیں گے. پھر اسے کھائیے اور پیجئے اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی رکھئے پھر اس کے بعد کسی انسان کو دیکھئے تو کہہ دیجئے کہ میں نے رحمان کے لئے روزہ کی نذر کرلی ہے لہذا آج میں کسی انسان سے بات نہیں کرسکتی.

Tafseer

									۱۔حضرت مریم (علیه السلام) کی مشکلات میں تربیت : وہ حادثات جو اس مختصر سی مدّت میں حضرت مریم (علیه السلام) پر گزرے اور لطف خداکے ایسے حیرت انگیز مناظر جو ان کے سامنے آئے ،اور وہ مسلمہ طورپر انہیں ایک اولوالعزم پیغمبر کی پرورش کے لیے تیار کرہے تھے تاکہ وہ اس عظیم کام کی انجام دہی کے لیے اپنی مادری ذمہ داریوں کو اچھی طرح اداکرسکیں ۔
حادثات کی رفتارانہیں مشکلات کے آخری مرحلہ تک یہاں لے گئے یہاں تک کے انہیں اپنے اورزندگی کے اختتام کے درمیان ایک قدم سے زیادہ فاصلہ دکھائی نہ دیتا ۔
لیکن اچانک ورق الٹ جاتا اور تمام چیزیں ان کی مدد کے لیے دوڈ پڑتیں اور وہ ہر لحاظ سے آرام و سکون اور مطمئن ماحول میں قدم رکھ دیتیں ۔” ھذی الیک بجذع النخلة “ کاجملہ کہ جو حضرت مریم (علیه السلام) کو یہ حکم دے رہاہے کہ وہ کھجورکے درخت کو ہلائیں تاکہ اس کے پھل سے فائدہ اٹھائیں ، انہیں اور تمام انسانوں کو یہ سبق سکھاتا ہے کہ زندگی کے سخت ترین لمحات میں بھی تلاش اور کوشش سے ہاتھ نہیں اٹھاناچاہیے ۔
یہ بات ان لوگوں کاجواب ہے کہ جو یہ سوچتے ہیں کہ اس بات کی کیا ضرورت تھی کہ مریم (علیه السلام) اس حالت میں کہ انہیں ابھی ابھی و ضع حمل ہواتھا ،اٹھیں اورکھجورکے درخت کو ہلائیں ؟کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ وہ خداجس کے حکم سے خشک درخت بھی بارآور ہو گیا ، ہواکو بھچ دیتا تاکہ وہ درخت کی شاخوں کو ہلاتی اور مریم (علیه السلام) کء گرد ا گرد کھجوریں گراتی ، یہ کیا ہوا کہ جب مریم (علیه السلام) صحیح و سالم تھی تو جنت کے پھل ان کی محراب کے پاس آجاتے لیکن اس وقت جبکہ و ہ اس شدید مشکل میں گرفتار تھیں تو انہیں خوپھل چننے پڑے ؟ 
ہاں : مریم (علیه السلام) کو خداوندتعالیٰ کا یہ حکم اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ جب تک ہماری طرف سے حرکت نہیں ہوگی کو ئی برکت نہیں ہوگی ۔دوسرے الفاظ میں ہر شخص کو مشکلات کے وقت زیادہ کوشش کرنی چاہیے اوراس کے علاوہ وہ جو باتیں اس کی قدرت و طاقت سے باہر ہیں ان کے لیے خداوند تعالیٰ کے حضورمیں دعاکرے ۔جیساکہ شاعرنے کہا 
برخیزو فشاں درخت خرما تاسیرشوی رسی ببارش 
کان مریم تا درخت نفشاند خرمانفتاد در کنارش