مریم (علیه السلام) سخت طوفانوں کے تھپڑوں میں
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا ۲۲فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا ۲۳فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا ۲۴وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ۲۵فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا ۲۶
پھر وہ حاملہ ہوگئیں اور لوگوں سے دور ایک جگہ چلی گئیں. پھر وضع حمل کا وقت انہیں ایک کھجور کی شاخ کے قریب لے آیا تو انہوں نے کہا کہ اے کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور بالکل فراموش کردینے کے قابل ہوگئی ہوتی. تو اس نے نیچے سے آواز دی کہ آپ پریشان نہ ہوں خدا نے آپ کے قدموں میں چشمہ جاری کردیا ہے. اور خرمے کی شاخ کو اپنی طرف ہلائیں اس سے تازہ تازہ خرمے گر پڑیں گے. پھر اسے کھائیے اور پیجئے اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی رکھئے پھر اس کے بعد کسی انسان کو دیکھئے تو کہہ دیجئے کہ میں نے رحمان کے لئے روزہ کی نذر کرلی ہے لہذا آج میں کسی انسان سے بات نہیں کرسکتی.
مریم (علیه السلام) سخت طوفانوں کے تھپڑوں میں :
” سر انجام مریم حاملہ ہو گئی “ اور اس موعود بچہ نے اس کے رحم میں جگہ پائی (فحملتہ) ۔
اس بارے میں کہ یہ بچہ کس طرح و جود میں آیا ، کیا جبرئیل نے مریم کے پیرہن میں پھونکا یا ان کےے منہ میں قرآن مجید میں اس کے متعلق کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اسکی ضرورت نہیں تھی اگر چہ مفسرین کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ۔
بہر حال اس امر کے سبب و ہ بیت المقدس سے کسی دور دراز مقام پر چلی گئی (فانتبذت بہ مکاناقصیا) ۔
وہ اس حالت میں ایک امید وہم کے دومیا ن پریشانی و خوشی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ وقت گزاررہی تھی ، کبھی وہ یہ خیال کرتی کہ آخرکار یہ حمل ظاہرہوجائے گا ،مانا کہ چند دن یا چن مہینے ان لوگوں سے دوررہ لوں گی اور اس مقام پر ایک اجنبی کی طرح زندگی بسر کرلوں گی مگر آخر کارکیاہوگا ۔
کون میری بات قبول کرے گا کہ ایک عورت بغیر شوہر کے حاملہ ہوگئی سوائے اس کے کہ اس کا دامن آلودہ ہو ، میں اس اہتمام کے مقابلہ میں کیا کروں گا ۔واقعاوہ لڑکی کہ جو سالہا سے پاکیزگی و عفت اور تقویٰ و پر ہیز گار ی کی علاتھی اور خداکی عبادت و بندگی میں نمونہ تھی جس کے بچپنے میں کفالت کرنے پر بنی اسرائیل کے زاہد وعابد فخرکرتے تھے ۔اور جس نے ایک عظیم پیغمبر کے زیرنظر پرورش پائی تھی ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس کے اخلاق کی دھوم اور پاکیز گی کی شہرت ہر جگہ پہنچی ہوئی تھی اس کے لیے یہ بات بہت ہی درد نک تھی کہ ایک دن وہ یہ محسوس کرے کہ اس کا یہ سب معنوی سرمایہ خطرے میں پڑ گیا ہے ،اور وہ ایک تہمت کے گرداب میں پھنس گئی ہے کہ جو بد ترین تہمت شمار ہوتی ہے ْاور تیسرا الزرہ تھا کہ جو اس کے جسم پر طاری ہو ا ۔
لیکن دوسری طرف وہ محسوس کرتی تھی کہ یہ فرزند خدا وندتعالیٰ کاموعودپیغمبر ہے یہ ایک عظیم آسمانی تحفہ ہو گا ، وہ خداکہ جس نے مجھے ایسے فرزند کی بشارت دی ہے اورایسے معجزہ انہ طریقہ سے اسے پیدا کیا ہے مجھے اکیلاچھوڑے گا ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس قسم کے اتہام کے مقابلہ میں میرادفاع نہ کرے ؟ میں نے تو اس کے لطف و کرم کو ہمیشہ آزمایا ہے اوراس کا دست رحمت ہمیشہ اپنے سرپر دیکھا ہے ۔
اس بات پر کہ مریم (علیه السلام) کی مدت حمل کس قدر تھی ،مفسرین کے دومیان اختلاف ہے ، اگرچہ قرآن میں سر بستہ طورپر بیان ہواہے ( پھر بھی ) بعض نے اسے ایک گھنٹہ ،بعض نے نو گھنٹے بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ بعض نے آٹھ ماہ اور بعض نے دوسری عورتوں کی طرح نو مہینے کہا ہے ، لیکن یہ موضوع اس واقعے کے مقصد پر اثر نہیں رکھتا ۔روایات بھی اس سلسلہ میں مختلف ہیں ۔
اس بارے میں کہ یہ جگہ ”قصی “ (دوردراز ) کہاں تھی ، بہت سے لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ شہر ”نا صر ہ “ تھا اور شاید اس شہر میں بھی وہ مسلسل گھر ہی میں رہتی تھیں اور بہت کم باہر نکلتی تھیں ۔
جو کچھ بھی تھا مدّت حمل ختم ہوئی اور مریم کی زندگی کے طوفانی لمحات شروع ہو گئے انہیں سخت دردزہ کا آغاز ہوگیا ۔اور جو انہیں آبادی سے بیابان کی طرف لے گیا ۔ایسابیابان جو انسان سے خالی ، خشک اور بے آب تھا جہاں کوئی جائے پناہ نہ تھی ۔
اگر چہ اس حالت میںعورتیں اپنے قریبی اعزّہ کی پناہ لیتی ہیں تاکہ وہ بچہ کی پیدائش کے سلسلہ میں ان کے مدد کریں ،لیکن مریم کی حالت چونکہ ایک استثنائی کیفت تھی ، وہ ہر گز نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے و ضع حمل کو دیکھے لہذادردزہ کے شروع ہوتے ہی انہونے بیابان کی راہ لی ۔
قرآن اس سلسلہ میں کہتا ہے : وضع حمل کاوہ درد اسے کھجور کے درخت کے پاس کھینچ لے گیا ۔( فاجائھا المخاض الی جذالنخلة) ۔
”جذع النخلة“ کی تعبیر : اس بات کومد نظر ہوئے کہ ” جذع “ درخت کے تناکے معنی میں ہے ، یہ نشاندہی کرتی ہے کہ : اس درخت کاصرف تنہ باقی رہ گیا تھا یعنی وہ خشک شدہ درخت تھا (۱) ۔
اس حالت میں غم واندوہ کا ایک طوفان تھا جو مریم (علیه السلام) کے پورے و جود پر طاری تھا ، انہوں نے محسوس کیا کہ جس لمحے کاخوف تھا وہ آن پہنچاہے ایسالحظ کہ جس میںوہ سب آشکار ہوجائے گا جواب تک چھپاہواہے اور بے ایمان لوگوں کی طرف سے ان پر تہمت کے تیروں کی بارش شروع ہوجائیگی ۔
یہ طوفان اس قدر سخت تھا اور یہ باران کے دوش پر اتناسنگین تھا کہ بے اختیار ہوکر بولیں ، اس کاش ! میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور بلکل بھلادی جاتی ۔(قالت یالیتنی مت قبل ھذٰوکنت نسیامنسیا) ۔
یہ بات صاف طورپر ظاہر ہے کہ حضرت مریم (علیه السلام) کو صرف آئندہ کی تہمتوں کاخوف ہی نہیں تھا کہ جوان کے دل کو بے چین کیے ہوئے تھا ، بلکہ انہیں سب سے زیادہ فکر اس نات کا تھا کہ دوسری مشکلات بھی تھیں کسی اور ہمد مو مددگار کے بغیر و ضع حمل ، سنسان بیابا ن میں بالکل تنہائی ، آرام کے لیے کوئی جگہ نہ ہونا ، پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لئے غذاکا فقدان اور نو مولود کے لیے نگہداشت کے کسی وسیلے کا ہو نا یہ ایسے امور تھے کہ جنہوں نے انہیں سخت پریشان کررکھا تھا ۔
اور وی لوگ جویہ کہتے ہیں کہ حضرت مریم (علیه السلام) نے ایمان اور توحید کی ایسی معرفت کے ہوتے ہو ئے اور خداوندتعالیٰ کے اتنے لطف و کر م اور احسانات دیکھنے کے باوجود ایساجملہ زبان پر کیسے جاری کیا کہ ” اے کاش میں مرگئی ہوتی اور فراموش ہو چکی ہوتی“ انہونے اس وقت میں جناب مریم (علیه السلام) کی حالت کا تصور ہی نہیں کیا ۔اور اگر وہ خودان مشکلات میں سے کسی چھوٹی سی مشکل میں بھی گرفتار ہوجائیں تو ان کے ایسے ہاتھ پاؤ پھول جائیں گے کہ انہیں خود اپنی بھی خبرنہ رہے گی اور وہ خود کو بھی بھول جائیں گے ۔
لیکن یہ حالت زیادہ دیرتک باقی نہ رہی اور امید کاوہی روشن نقط جو ہمیشہ انکے دل کی گہرائیوں میں رہتا تھا چمکنے لگا ۔یکایک ایک آواز ان کے کانوں میں آئی جو ان کے پاؤ کے نیچے سے بلند ہو رہی تھی اور واضح طورپرکہہ رہی تھی کہ غمگین نہ ہو ۔غور سے دیکھ تیرے پروردگار نے تیرے پاؤ کے نیچے ایک کوشگوار پانی کا چشمہ جاری ہے ( فنادٰ ھامن تحتھاان لاحرنی قد جعل ربک تختک سریا ) ۔
ایک نظر اپنے سرکے اوپر ڈالواور غور سے دیکھو کہ کس طرح خشک تنہ بارآور کھجورکے درخت میں تبدیل ہو گیا ہے پھلوں نے اس کی شاخوں کو زینت بخشی ہے اور اس کھجورکے درخت کو ہلاؤتاکہ تازہ کھجوریں تم پرگرنے لگیں ( وھزی الیک بجد ع النخلة تساقط علیک رطباجنیا) ۔
اس لذیذ اور قوت بخش غذامیں کھاؤ اوراس خوشگوارپانی میں سے پیو( فکلی واشربی ) ۔
اور اپنی آنکھوں کو اس نومولود سے روشن رکھو ( وقری عینا) ۔
اور اگر آیند ہ کے حالات سے پریشانی ہے تو مطمئن رہو جب تم کسی بشر کو دیکھو اور وہ تم سے اس بارے میں و ضاحت چاہے تو اشارہ کے ساتھ اس سے کہہددیناکہ میں نے خدائے رحمن کے لیے روزہ رکھاہواہے ، خاموشی کا روزہ اور اس سبب میں آج کسی سے بات نہیں کروں گی (فاماترین من البشراحد افقولی انی نذرت للرحمن صومافلن الیوم انسیا) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ تمہیں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ تم آپ اپنادفاع کرو وہ ذات کہ جس نے یہ مولود تمہیں عطاکیا ہے ،اس نے تیرے دفاع کی ذمہ داری بھی اسی کے سپرد کردی ہے اس لیے تم ہر طرح سے مطمئن رہو اور غم و اندوہ کو اپنے دل میں جگہ نہ دو ان پے درپے واقعات نے جو ایک انتہائی تاریک فضامیں روشن شعلوں کی طرح چمکنے لگے تھے ،اور ان کے دل کو پوری طرح روشن کردیا تھا اور انہیں ایک سکون بخش دیا تھا ۔