حضرت عیسٰی (علیه السلام) کی ولادت :
قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَٰنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا ۱۸قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا ۱۹قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا ۲۰قَالَ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۖ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا ۚ وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا ۲۱
انہوں نے کہا کہ اگر تو خوف خدا رکھتا ہے تو میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں. اس نے کہاکہ میں آپ کے رب کا فرستادہ ہوں کہ آپ کو ایک پاکیزہ فرزند عطا کردوں. انہوں نے کہا کہ میرے یہاں فرزند کس طرح ہوگا جب کہ مجھے کسی بشر نے چھوا بھی نہیں ہے اور میں کوئی بدکردار نہیں ہوں. اس نے کہا کہ اسی طرح آپ کے پروردگار کا ارشاد ہے کہ میرے لئے یہ کام آسان ہے اور اس لئے کہ میں اسے لوگوں کے لئے نشانی بنادوں اور اپنی طرف سے رحمت قرار دیدوں اور یہ بات طے شدہ ہے.
حضرت عیسٰی (علیه السلام)کی ولادت :
حضرت یحییٰ (علیه السلام)کا قصہ بیان کرنے کے بعد حضرت عیسٰی (علیه السلام) کی ولادت کی دوستان اور ان کی ولدہ حضرت مریم (علیه السلام) کا قصہ شروع کیا گیا ہے کیونکہ ان دونوں قصوں کے درمیان بہت قریبی تعلق ہے اگر حضرت یحییٰ (علیه السلام) کی پیدائش ایک ایسے بوڈھے اورضعیف باپ سے اور ایک ایسی ماں سے جو بانجھ تھی تو حضرت عیسٰی کا بغیر باپ کے ماں سے پیدا ہو جانا اس سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے ۔
اگر بچپن میں عقل اور نبوت کے مقام تک پہنچنا حیرت انگیز ہے ۔ تو گہوارے میں گفتگوکرنا اور وہ بھی کتاب نبوت کے بارے میں ،اس سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے ۔
بہر حال یہ دونوں خداوند تعالیٰ کی ایسی نشانیاں ہیں جو ایک دوسرے سے بڑ ی ہیں اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایسے اشخاص کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو نسب کی حیثیت سے بہت ہی قریبی ر شتہ کھتے تھے ۔کیونکہ حضرت یحییٰ (علیه السلام) کی والدہ اور حضرت مریم (علیه السلام) کی والدی کی بہن تھی اور یہ دونوں خواتین بانجھ اور عقیم تھی اور دونوں صالح اورنیک فرزند کی آرزو میں زندگی بسر کرہی تھیں ۔
پہلی زیر بحث آیت کہتی ہے : آسمانی کتاب قرآن مجید میں مریم کی بات کرو کہ جس وقت اس نے اپنے گھر والوں سے جداہوکر مشرقی حصہ میں قیام کیا ۔
اواذکرفی الکتاب مریم اذانتبذمن اھاھامکانا شرقیا
درحقیقت وہ ایک ایسی خالی اورفاغ جگہ چاہتی تھی جہان پر کسی قسم کا کو ئی شوروغل نہ ہو تاکہ وہ اپنے خداسے رازو نیاز میں مشغول رو سکے اور کوئی شیز اسے یاد محبوب سے خالی غافل نہ کرے ، اسی مقصد کے لیے اس نے عظیم عبادت گاہ بیت المقدس کی مشرق سمت کو جوشاید زیادہ آرام و سکون کی جگہ تھی یا سورج کی روشنی کے الحاظ زیادہ پاک صاف اور زیادہ مناسب تھی ،انتخاب کیا ۔
لفظ” انتبذت“ نبذ کے مادہ سے ہے راغب کے قول کے مطابق ، جو چیزیں ناقابل ملاحظ ہوں انہیں دور پھینکے کے معنی میں ہے اور مذکورہ بالاآیت میںیہ تفسیر شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مریم نے متو اضعانہ اور گنامی کی صورت میں اور ہر قسم کے ایسے کام سے خالی ہو کر ، جو تو جہ کو اپنی طرف لے جائے ،سب سے زیادہ کشی اختیار کی اور اخانہ خداکی اس جگہ کو عبادت کے لیے چنا ۔
اس وقت مریم (علیه السلام) نے ”اپنے اور دوسروں کے درمیان ایک پردہ ڈال لیا “ تاکہ اس کی خلوت گاہ ہر لحاظ سے کامل ہو جائے ۔
(فاتخذ ت من دونھم خجابا)
اس جملے میںیہ بات صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوئی کہ پروہ کس مقصد کے لیے کیا گیا تھا آیا اس مقصد کے لیے تھا کہ زیادہ یکسوئی کے ساتھ شوروغل سے یکسوئی کے ساتھ پروردگار کی عبادت اور اس سے رازو نیاز کرسکے یااس لیے تھا کہ نہائیں دھوئیں اور غسل کریں ، آیت اس لحاظ سے خاموس ہے ۔
بہر حال اس وقت ہم نے اپنی ”روح “ (جو بزرگ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے ) اس کی طرف بھیجی اور وہ بے عیب خوبصورت اور کامل انسان کی شکل میں مریم (علیه السلام) کے سامنے ظاہر ہو ئی (فارسلنا الیھا روحنا فتمثل الھابشراسویا ) ۔
ظاہر ہے ایسی موقع پر مریم (علیه السلام) کی کیا حالت ہو گی ۔وہ مریم (علیه السلام)کہ جس نے ہمیشہ پاکدامنی کی زندگی گزاری ، پاکیزہ افراد کے دامن میں پرورش پائی اور تمام لوگو ں کے درمیان عفت و تقویٰ کی ضرب المثل تھی اس پر اس قسم کے منظر کو دیکھ کر کیا گزری ہوگی ایک خوبصورت اجنبی آدمی اسکی خلوت گاہ میں ہنچ گیا تھا اس پر بڑی وحشت طاری ہوئی فورا پکاری کہ میں خدائے ر حمان کی پناہ چاہتی ہو ں ک مجھے تجھ سے بچائے اگر تو پرہیز گار ہے ۔
(قالت انی اعوذ باالرحمن منک ان کنت تقیا)
اور یہ خوف ایساتھا کہ جس نے مریم کے سارے وجود کو ہلاکر رکھدیا خدائے رحمن کا نام لینا اور اس کی رحمت عامہ کے ساتھ تو صیف کرنا ایک طرف اور اسے تقویٰ اور پر ہیز گاری کی تشویق کرنا دوسری طرف ، یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ اگر وہ اجنبی آدمی کوئی بڑاارادہ رکھتا ہو تو اس پر کنڑو ل کرے اور سب سے بڑھ کر خداکی طرف پناہ لینا ، وہ خداکہ جو انسان کے لیے سخت ترین حلات میں سہارا اور جائے پناہ ہے اور کوئی قدرت اس کی قد رت کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتی ۔
حضرت مریم (علیه السلام) یہ بات کہنے کے ساتھ ا س اجنبی آدمی کے ردّ عمل کی منتظر تھیں ۔ایسا انتظار جس میں بہت پریشانی اور وحشت کا رنگ تھا ، لیکن یہ حالت زیادہ دیر تک باقی نہ رہی ، اس اجنبی نے گفتگو کے لیے زبان کھولی اور اپنی عظیم ذمہ داری اور مامورت کو اس طرح سے بیان کیا اس نے کہا کہ میں تیرے پروردگار کا بھیجا ہو ا ہوں (قال انما انارسول ربک ) ۔
اس جملہ نے اس پانی کی طرح جو آگ پر چھڑ کاجاتا ہے حضرت مریم (علیه السلام) کے پاکیزہ دل کو سکون بخشا لیکن یہ سکون زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا کیونکہ اس نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا : میں اس لئے آیا ہو ں کہ تمیں ایک ایسالڑکا بخشوں جوجسم و روح اور اخلاق و عادلت کے لحاظ سے پاک و پاکیزہ ہو ( لاھب نک غلامازکیا )
یہ بات سنتے ہی مریم (علیه السلام)کا نپ اٹھیں وہ پھر ایک گہری پریشانی میں ڈوب گئیں اور ” کہا کہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ میرے کوئی لڑکاہو حالانکہ کسی انسان نے اب تک مجھے چھواتک نہیں اور میں ہر گز کوئی بدکار عورت بھی نہیں ہو ں ”قالت انی یکون لی غلام ولم یمسنی بشرو لم بغیا) ۔
وہ اس حالت میں صرف معمول کے اسباب کے مطابق سو چ رہی تھیں کیونکہ کوئی عورت صاحب اولاد ہو ، اس کے لیے صرف دوہی راستے ہیں یا تو وہ شادی کرے یا بدکاری اور انحرف کا راستہ اختیار کرے میں تو خود کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر طور پر جانتی ہوں ، نہ تو ابھی تک میراکوئی شوہر ہے اور نہ ہی میں کبھی منحرف عورت رہی ہوں اب تک تو یہ بات ہر گز سننے میں نہیں آئی کوئی عورت ان دونوں صورتوں کے سواصاحب اولاد ہوئی ہو ۔
لیکن جلدی ہی اس نئی پر یشانی کا طوفان بھی پروردگار عالم کے قاصد کی ایک دوسری بات سننے سے تھم گیا اس نے مریم سے صراحت کے ساتھ کہا : ” مطلب تو یہی ہے کیونکہ تیرے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ کام میرے لیے سہل اور آسان ہے “ (قال کذالک قال ربک ھوعلی ھین )
تو تو اچھی طرح میری قدرت سے آگا ہ ہے ، تونے تو بہشت کے وہ پھل جو دنیا میں اس فصل میں ہوتے ہی نہیں اپنے محراب عبادت کے پاس دیکھے ہیں ، تو نے تو فرشتوں کی وہ آوا ز یں سنی ہیں جو تیری پاکیزگی کی شہادت کے لیے تھیں تجھے تو یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرے جد امجد آدم مٹی سے پیداہوئے ۔پھر یہ کیسا تعجب ہے جو تجھے اس خبرسے ہو رہا ہے ۔
ٓ اس کے بعد اس نے مزید کہا : ہم چاہتے ہیں کہ اسے لوگوں کے لیے آیت اور ایک معجزہ قرار دیں ( ولنجعلہ اٰیة للناس ) ۔
اور ہم چاہتے ہیں کہ اسے اپنے بندوں کے لیے اپنی طرف رحمت قرار دیں (ورحمةمنا) ۔
بہر حال یہ فیصلہ شدہ امرہے اور اس میں گفتگو کی گنجائش نہیں ہے (وکان امراء قضیا) ۔