Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۳۔بچپن میں نبوت

										
																									
								

Ayat No : 12-15

: مريم

يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ۱۲وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا ۱۳وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا ۱۴وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ۱۵

Translation

یحیٰی علیھ السّلام! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی. اور اپنی طرف سے مہربانی اور پاکیزگی بھی عطا کردی اور وہ خورِ خدا رکھنے والے تھے. اور اپنے ماں باپ کے حق میں نیک برتاؤ کرنے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے. ان پر ہمار اسلام جس دن پیدا ہوئے اور جس دن انہیں موت آئی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے.

Tafseer

									۳۔بچپن میں نبوت :یہ درست ہے کہ انسا ن کی عقل کے ارتقاء کا دروعام طورپر ایک خاص حد پر ہوتا ہے لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ انسانوں میں ہمیشہ ہی بعض مستثنی افراد موجودرہے ہیں تو اس بات میں کونساامرمانع ہے کہ خداندے تعالیٰ (عقل کے ارتقاء کے ) اس دور کو بعض بندوں کے لئے کچھ امصالح کی بناپر زیادہ مختصر کردے اور کم سے کم عرصہ میں اسے مکمل کردے جیساکہ بچوں کے لیے بولناسیکھنے کے لیے عام طور پر ایک دو سال کا گزرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیس(علیه السلام)ی نے بالکل ابتدائی دنوں میں بات کی ،اور وہ ایسی بات تھی جو بہت ہی پور معنی تھی ،اور معمول کے مطابق بڑی عمر کے شایان شان تھی جیساکہ ، انشااللہ ،آنیدہ آیات کی تفسیر میں بیان ہو گا ۔
یہاں سے یہ بات واضح جاتی ہے ،کہ وہ اشکال جو کچھ افراد نے شیعوں کے بعض کے بعض آئمہ کے بارے میں کیا ہے ،کہ ان میں سے بعض کم عمرہی میں مقام امامت پر کیسے پہنچ جاتے گئے ،درست نہیں ۔
ایک روایت میں امام جواد حضرت محمد بن علی انقی علیہ السلام کے ایک صحابی سے کہ جس کا نام علی بناسباط تھا منقول ہے ک : 
میں حضرت کی خد مت میں حاضرہو (جب کہ آپ کا سن بہت چھوٹاتھا ) میں ان کے قدو قامت میں گم ہو گیا تاکہ اسے اپنے ذہن میں بیٹھالوں اور جب میں واپس مصر لوٹ کر جاؤ تو اپنے دوستوں سے اس بات کے کم و کیفت کو بیان کروں عین اسی وقت جب کہ میں یہ سو چ ہی رہاتھا ک حضرت بیٹھ گئے (گویاآپ نے میری تمام سوچ کا مطالعہ کرلیا تھا ) میری طرف رخ کیا اور فرمایا اے علی بن اسباط ! خداتعالیٰ نے مسئلہ امامت میں جو کام کیا ہے و ہ اسی کام کی طرح ہے کہ جو نبوٹ میں کیا ہے وہ فرماتاہے :۔
واٰتیناہ الحکم صبیاً
ہم نے یحییٰ کو بچپن میںفرمان نبوت و عقل و دانش عطاکی 
اور کبھی انسانوں کے بارے میں فرمایاہے : 
حتّی اذابلغ اشدہ ع بلغ اربعین سنة  
”جس وقت انسان کامل “ عقل کی حد بلوغ ‘چالس سال کو پہنچ گیا -- -  
بنابر یں جس طرح یہ بات ممکن ہے کہ خداوند تعالیٰ کسی انسان کو حکومت و دانائی بچپن میں عطا فرمادے اسی طرح اس کی قدرت میں ہے ہے کے چالس سال کی عمر میں دے ۔
ضمنی طور پر یہ آیت ان اعتراض کرنے والوں کے لیے ایک دندان شکن جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام مردوں میں سے پیغمبر اکرم پر ایمان لانے والے پہلے شخص نہیں تھے کیونکہ وہ تو اس وقت دس سال کے تھے اور دس سالہ بچہ کا ایمان قابل قبول نہیں ہے ۔ 
اس نکتے کا ذکر کرنا بھی یہاں پر غیر مناسب نہیں ہوگا کہ ایک حدیث میں امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام ک بارے میں منقول ہے : 
آپ نے فرمایا :کے بچپن کے زمانہ میں کچھ بچے آپ ک پاس آئے اور آپ سے کہا : 
اذھب بنانلعب 
ہمارے ساتھ آؤ تا کہ ہم مل کر کھیلیں 
تو آپ نے جواب فرمایا: 
ماللعب خلقنا 
ہم کھیلنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے ۔
اسی سلسلہ میں اللہ نے فر مایا ہے : 
واٰ تیناہ الحکم صبیاً
البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں ” لعب “ سے مراد بیہودہ اور فضول قسم کی سرگر میاں ہیں دوسرے لفظوں میں بیہودو مشاغل میں مشغول ہوتا ہے لیکن کھبی ایسابھی ہوتا ہے کہ کھیل کود کا کو ئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے ۔ایسا مقصد کہ جو منطقی و عقلی ہوتو مسلّہ طور پر ایسے کھیل کود اس حکم سے مستثنی ہیں ۔