۱۔ اسمانی کتاب قوت و طاقت کے ساتھ پکڑ لو
يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ۱۲وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا ۱۳وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا ۱۴وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ۱۵
یحیٰی علیھ السّلام! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی. اور اپنی طرف سے مہربانی اور پاکیزگی بھی عطا کردی اور وہ خورِ خدا رکھنے والے تھے. اور اپنے ماں باپ کے حق میں نیک برتاؤ کرنے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے. ان پر ہمار اسلام جس دن پیدا ہوئے اور جس دن انہیں موت آئی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے.
۱۔ اسمانی کتاب قوت و طاقت کے ساتھ پکڑ لو : جیسا کہ ہم کہ چکہ ہیں ۔یا یحییٰ” خذالکتاب بقوة“ کے جملے میں لفظ ”قوة“ مکمل طور پر ایک وسیع معنی ر کھتا ہے جس میں تمام مادی معنوی اور روحانی و جسمانی قوتیں جمع ہیں اور یہ چیز خود اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ دین الہٰی اور اسلام و قرآن کی حفاظت کمزوری سستی و کاہلی ، لنگڑے لولے بن کر پڑ ے رہنے اور غفلت شعاری کے ساتھ ممکن نہیں ہے ، بلکہ یہ قوت و طاقت اور قابلیت کے طاقتور قلعے کے اندر ہی ہو سکتی ہے ۔
اگر چہ یہاں پر مخاطب حضرت یحییٰ(علیه السلام) ہیں لیکن قرآ ن مجید کے دوسرے مواقع پر تعمیر دوسرے لوگوں کے لیے ربھی صادق آتی ہوئی نظر آتی معلو م ہو تی ہے ۔
سورہ اعراف کی آیہ ۱۴۵میں حضرت موسیٰ کو یہ حکم دیا جارہاہے کہ وہ تورات کو قوّت کے ساتھ پکڑ یں ۔
فخذھا بقرة
اور سورہ بقرہ کی آیہ ۶۲ اور ۹۳ میں یہی خطاب تمام بنی اسرئیل کے لیے ۔
خذوامااٰتیناکم بقوْاّة
اسے معلوم ہو تا ہے کہ یہ ایک عا م حکم ہے جو سب کے لیے ہے نہ ک کسی خاص شخص یا اشخاص کے لیے۔
اتفاق کی بات ہے کہ یہی مفہوم دوسرے لفظوں میں سورہ انفال کی آ یہ ۶۰ میں تمام مسلمانوں کے لے بیا ن کیا ہو اہے :
واعدوالھم مااستطعتم من قوّة
جس قدر قوّت و طاقت تمہارے بس میں ہو دشمنوں کو مرعوب کرنے کے لیے فراہم کرو ۔
بہر حال یہ آیہ ا ن سب لوگوں کا جواب ہے کہ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ کمزوری اور ضعف کے ساتھ کوئی کام سرانجام دیا جاسکتا ہے یا جو یہ چاہتے ہیں کہ تمام حلات میں حلات کے ساتھ سمجھوتہ کرتے کرتے ہوئے مشکلات کو حل کریں ۔