Tafseer e Namoona

Topic

											

									  حضرت یحییٰ کی عمدہ صفات

										
																									
								

Ayat No : 12-15

: مريم

يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ۱۲وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا ۱۳وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا ۱۴وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ۱۵

Translation

یحیٰی علیھ السّلام! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی. اور اپنی طرف سے مہربانی اور پاکیزگی بھی عطا کردی اور وہ خورِ خدا رکھنے والے تھے. اور اپنے ماں باپ کے حق میں نیک برتاؤ کرنے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے. ان پر ہمار اسلام جس دن پیدا ہوئے اور جس دن انہیں موت آئی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے.

Tafseer

									حضرت یحییٰ کی عمدہ صفات :


گزشتہ آیات میں ہم نے دیکھا کہ خداوندتعالیٰ کس طرح حضرت زکریا (علیه السلام) کو بڑھاپے میں حضرت یحییٰ کا سافرزند سعید مرحمت فرمایا اس کے بعد ہم ان آیات میں خداوندتعالیٰ کا اہم فرمان یحییٰ (علیه السلام) سے خطاب کی صورت میں پڑھتے ہیں : اے یحییٰ (علیه السلام) ! کتاب خداکو مضبوطی سے پکڑ لو (یا یحییٰ خذالکتاب بقرة) ۔
مفسرین کے درمیان مشہور یہ ہے یہا کتاب سے مراد ”تورات “ ہے یہاں تک کہ انہونے اس سلسلہ میں اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا ہے (۱)
لیکن بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ وہ خود ایک مخصوص کتاب رکھتے تھے ۔(داؤد کی زبور کی طرح ) البتہ وہ ایسی کتاب نہیں تھی کہ جو کسی نئے دین یا جدیدمذہب کو پیش کرتی ہو ۔(۲) 
بہرحال کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ نے سے مراد یہ ہے کہ آسمانی کتاب تورات اور اس کا مطالب و احکام کا اجراء مکمل اور قطعی صورت میں عزم راسخ اور آہنی ارادہ کے ساتھ کریں ، اس ساری کتا ب پر عمل کریں ،اسے عام کرنے کے لئے ہرقسم کی مادی و روحانی اور انفرادی و اجتماعی قوّت سے فائداٹھائیں ۔
اصولی طور پر کسی کتاب اور اکسی مکتب و مسلک کو اس کے پیروکا روں کی قوت ، طاقت اور قابلیت کے بغیر جاری نہیں کیاجاسکتا ہے یہ تمام مومنین اور اللہ کی راہ کے تمام راہیوں کے لیے ایک درس ہے ۔
اس حکم بعد ان دس نعمات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو خدانے حضرت یحییٰ عطافرمائی تھیں یا انہونے تو فیق الہٰی سے کسب کی تھیں : 
۱۔ ہم نے اس کو بچپن میں فرمان نبوت اور عقل و ہوش و روایت عطاکی (واٰتینہٰالحکوصبیّا) ۔
۲۔ ہم نے اسے اپنی طرف سے بندوں کے لیے رحمت و محبت بخشی (و حنانامن لدنا) ”حنان“ اصل میں حمت شفقت محبت اور لوگوں کے ساتھ تعلق و میلان کے اظہار کے معنی میں ہے ۔
۳۔ ہم نے اسے روح و جان اور عمل کی پاکیزگی عطاکی (و زکوٰة) ۔
مفسرین نے --” زکوة“ کے مختلف معانی کیے ہیں بعض نے اس کے عمل صالح سے بعض نے اطاعت و اخلاق سے بعض نے ماں باپ سے نیکی کرنے سے ، بعض نے حسن شہرت سے اور بعص نے پیروکاروں کی پاکیزگی سے تفسیر کی ہے ، لیکن ظاہر یہ ہے کہ لفظ زکوة ایک وسیع معنی رکھتا ہے کہ جس میں یہ تمام پاکیزگیاشامل ہیں ۔
۴۔وہ پرہیز گارتھے اور جو بات فرمان پر ودردگار کے خلاف ہوتی تھی اس سے دوری اختیار کرتے تھے ۔(وکان تقیّا) 
۵۔ اسے ہم نے اپنے ماں باپ کے ساتھ خوش گفتار نیکوکاراور محبت کرنے والاپایا(وبرّابوالدیہ) ۔
۶۔وہ خلق خداسے خدد کو برتر سمجھنے والااور ظالم و متکبرنہیں تھا (ولم یکن جباراً) ۔
۷۔وہ معصیت کار اور گناہ سے الودہ نہیں تھا (عصیا) ۔
۸،۹،۱۰۔اور چونکہ وہ ان عظیم افتخارات اور عمدہ صفات کا مالک تھا ، لہذاجس دن پیداہوااس دن بھی اور اجس دنااس کو موت آئے اس دن بھی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ کرکے قبرسے اٹھایا جائے گا اس دن بھی ،اس پر ہمارادرودوسلام ہو ، (وسلام علیہ یوم ولدویوم یموت ویوم یبعث حیا) ۔

 


۱۔ تفسیر ”آلوسی “ اوتفسیر”قرطبی“ کی طرفزیربحث آیہ کی ذیل میں رجوع کریں ۔
۲۔تفسیر” المیزان “ کی طرف زیربحث آیہ کے ذیل میں رجوع کریں ۔