۲۔محراب
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ۱۰فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا ۱۱
انہوں نے کہا کہ پروردگار اس ولادت کی کوئی علامت قرار دے دے ارشاد ہوا کہ تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم تین دنوں تک برابر لوگوں سے کلام نہیں کرو گے. اس کے بعد زکریا محرابِ عبادت سے قوم کی طرف نکلے اور انہیں اشارہ کیا کہ صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے رہو.
۲۔محراب : یہ ایک ایسی مخصوص جگہ ہوتی ہے کہ عبادت تگاہ میں امام یا پیش نماز کے لیے مخصوص کردی جاتی ہے اور اس کا نام رکھنے کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں ۔
پہلی یہ کہ مادہ ” حرب “ حرب سے جو جنگ کے معنی میں ہے لیا گیا ہے کیونکہ محراب در حقیقت شیطان اور ہوائے نفس کے ساتھ مبارزہ اور جنگ کرنے کی جگہ ہے
دوسری وجہ یہ کہ محراب لغت میں مجلس کے معنی میں لیا گیا ہے کیونکہ محرابکی جگہ عبادت گاہ کے اوپر ہوتی والے حصّہ میں ہوتی تھی لہذااسے یہ نام دیا گیا
بعض یہ کہتے ہیں کہ ، جو کچھ ہمارے ہاں معمول ہے ،اس کے برعکس بنی اسرائیل میں”محرب “ سطح زمین سے کچھ اوپر ہوتی تھی اور اس میں کچھ سڑھیاں ہوتی تھیں اور اس کے چارو ں طرف دیوار کھچی ہوئی ہوتی تی ، اس طرح سے کہ جو لوگ محراب میں ہوتے تھے وہ باہر سے دکھائی نہیں دیتے تھے ، ” فخرج علی قومہ من المحراب “ کا جملہ جو ہم نے مذکورہ بالاآیات میں پڑھا ہے لفظ ”علی “ پر توجہ کرتے ہوئے کہ جو کام عام طو ر پر اوپر کی سمت کے لیے استعمال ہوتا ہے اس معنی کی تا ئید کرتا ہے ۔