۱۔ یحییٰ (علیه السلام) ،عشق الٰہی میں سرشار پیغمبر
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ۱۰فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا ۱۱
انہوں نے کہا کہ پروردگار اس ولادت کی کوئی علامت قرار دے دے ارشاد ہوا کہ تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم تین دنوں تک برابر لوگوں سے کلام نہیں کرو گے. اس کے بعد زکریا محرابِ عبادت سے قوم کی طرف نکلے اور انہیں اشارہ کیا کہ صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے رہو.
۱۔ یحییٰ (علیه السلام) ،عشق الٰہی میں سرشار پیغمبر : حضرت یحییٰ (علیه السلام) کا نام سورہ آل عمران ، انعام ، مریم اور انبیاء میں مجموعی طور پر پانچ مرتبہ آیا ہے وہ خداوند تعالیٰ کے ایک عظیم پیغمبر تھے اور ان کی خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ بچپن میں مقام ِنبوت پر فائز ہوئے خداوند تعالیٰ نے انہیں اس سن و سال میں ایسی روشن عقل اور اتنی تابناک فہم و فراست عطافرمائی کہ اوہ اس عظیم منصب کو قبول کرنے کے لائق قرار پائے ۔
اس پیغمبر کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک کے بارے میں قرآن نے سورہ آل عمران کی آیہ ۲۹ میں اشارہ کیا ہے اور ان کے حصور کے ساتھ توصیف و تعریف ہے ۔جیسا کہ ہم نے اسی آیت کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ ” حصور “ کے مادہ سے اس شخص کے معنی میں ہے کہ جو کسی جہت سے محاصرہ میں قرار پائے ،اور اس مقام پر بعض روایات کے مظابق شادی سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے ۔
یہ کام ان کے لیے اس لحاظ سے امتیاز تھا کہ یہ ان کی انتہائی عفت و پاکیزگی کو بیان کرتا ہے یا وہ زندگی کے مخصوص حالات کی بناپر دین الہی کی تبلیغ کے لیے متعدد سفر وں پرجانے پر مجبور تھے اور عیسیٰ مسیح (علیه السلام) کی طرح مجروزندگی بسر کرنے پر مجبور تھے ۔
یہ تفسیر بھی ممکن ہے کہ اس آیت میں ” حصور “ سے مراد وہ شخص ہے کہ جس نے دنیاوی خواہشات اور ہوس کو ترک کردیا ہو اور در حقیقت یہ زہد کا ایک اعلیٰ مرحلہ ہو (۲) ۔
بہر حال منابع اسلامی اور منابع مسیح سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ (علیه السلام) حضرت عیسیٰ کی خالہ کے بیٹے تھے ۔
منابع مسح میں تصریح ہوئی ہے،کہ حضرت یحییٰ نے حضرت عیسیٰ کو غسل تعیدو دیا اور اسی لئے انہیں ”یحییٰ تعمید و ہندہ “ کے نام سے پکارتے ہیں (غسل تعمید ایک مخصوص غسل ہے کہ جو عیسائی اپنے بیٹوں کو دیتے ہیں اور انکا عقیدہ یہ ہے کہ وہ انہیں گناہ سے پاک کرتا ہے ) اور جب حضرت مسیح (علیه السلام) نے اعلان نبوت کیا تو حضرت یحییٰ (علیه السلام)ان پر ایمان لائے ۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت یحییٰ (علیه السلام) کو ئی خاص آسمانی کتا ب نہیں رکھتے تھے اور یہ جو بعد کی آیت میں ہم پڑ ھتے ہیں :۔
یایحییٰ خذالکتاب بقوة
اے یحییٰ ! کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو
یہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کی کتاب تورات کی طر ف اشارہ ہے
البتہ کچھ لوگ حضرت یحییٰ کے پیرو ہیں وہ ان کی طرف ایک کتاب کی نسبت بھی دیتے ہیں اور شاید ”موحدصائبین “ حضرت یحییٰ کے پیروہیں (۳) ۔
حضرت یحییٰ اور حضرت عیسٰی(علیه السلام) میں بعض چیزیں قدر مشترک تھیں انتہائی زیادہ زہد و تقویٰ ،مذکورہ بالااسباب کی بنا ء پر ترک ازدواج معجزہ انہ طورپر پیار ہونا اور اسی طرح بہت ہی زیادہ قریبی نسبت ۔
اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ میں بھی بعض باتیں مشتر ک تھیں، لہذ اامام علی بن الحسین زین العابدین (علیه السلام) سے اس طرح نقل ہواہے کہ آپ نے فرمایا :
خرجنامع الحسین بن علی (ع )فمامنزلاولارحل منہ الاذکریحییٰ بن ذکریا و قتلہ ، وقال ومن ھوان الہ دنیا علی اللہ ان رائس یحییٰ بن زکریا اھدی الیٰ بغی من بغا یاابنی اسرائیل
ہم امام حسین (علیه السلام)کے ساتھ( کربلاکی طرف جاتے ہوئے ) باہر نکلے تو امام جس منزل میں نزول اجلافرماتے یا اس سے کوچ کرتے تو یحییٰ (علیه السلام) اور ان کے چہید ہونے کو یاد کرتے اور فرماتے کہ خداوند تعالیٰ کے نزدیک دنیاکی بے قدری کے لیے یہی کافی ہے کہ یحییٰ اور بن زکریا (علیه السلام) کا سر بنی اسرائیل کے بد کاروں میں سے ایک بد کار کے پاس ہدیہ کے طورپر لایاگیا (۴) ۔
حضرت امام حسین (علیه السلام) کی شہادت بھی کئی ایک جہات سے حضرت یحییٰ کی شہادت کی مانند تھی ۔(حضرت یحییٰ کے قتل ہونے کی کیفیت ہم بعد میں بیان کریں گے ) ۔
امام حسین (علیه السلام) کا نام بھی حضرت یحییٰ کے نام کی طرح بے سابقہ تھا (اور پہلے کسی کا یہ نام بھی نہیں تھا ) اور ان کی مدت حمل ”جس وقت شکم مادر میں تھی “ معمولی کی نسبت بہت کم تھی ۔
۲۔اس بار ے میں کہ مخص ترک ازدواج اکیلاباعث فضیلت نہیں ہو سکتا اور قانون اسلام نے ازدواج کے سلسلے میں تاکید کی ہے تفسیر نمونہ کیددوسری جلد ،ص ،۳۱۷ (اردو ترجمہ ) میں ہم نے تفصیل سے بحث کی ہے ۔
۳۔اعلام قرآن ،ص ۶۶۷۔
4۔اعلام قرآن ،ص ۶۶۷۔