زکریا کی آرزو پوری ہوگئی
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ۱۰فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا ۱۱
انہوں نے کہا کہ پروردگار اس ولادت کی کوئی علامت قرار دے دے ارشاد ہوا کہ تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم تین دنوں تک برابر لوگوں سے کلام نہیں کرو گے. اس کے بعد زکریا محرابِ عبادت سے قوم کی طرف نکلے اور انہیں اشارہ کیا کہ صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے رہو.
زکریا کی آرزو پوری ہوگئی :
یہ آیات حضرت زکریا (علیه السلام) کی دعاکی بارگاہ پرور دگار میں قبولیت کو بیا ن کرہی ہیں یہ ایسا استجابت و قبولیت تھی جو اس کے مخصوص لطف و عنایت سے آمینحتہ تھی فرمایا گیا : اے زکریا ! ہم تجھے ایک فرزند کی بشارت دیتے ہیں کہ جس کا نام یحییٰ ہے ،ایسا لڑکا کہ جس کا پہلے کوئی ہم نام نہیں ہوا ۔(یا زکریا انا نبشرک بغلام اسمہ یحیی( لم نجعل لہ من قبل سمیاً )
کس قدر جاذب اور عمد ہ چیز ہے کہ خد وند تعالیٰ اپنے بندہ کی دعا اس طرح قبول کرے ،اور بشارت دے کر اس کی دعا کے نتیجے سے اسے اگاہ کرے اور فرزند کی در خواوست میں ایک بیٹاعنایت کرے اور اس کا نام بھی خود ہی رکھ دے ۔اور امزید کہے کہ یہ فرزند کئی جہات سے منفردہے او ر اس سے پہلے کوئی ایسانہیں ہوا ۔
کیونکہ (لم نجعل لہ من قبل سمیا) کا ترجمہ اگر چہ ظاہر اً اس معنی میں ہے کہ اب تک کوئی اس کا نام نہیں تھا ۔لیکن چونکہ محض نام کسی کی شخصیت کی دلیل نہیں ہے لہذا معلو م ہوتا ہے کہ یہ اسم مسمّٰی کی طرف اشارہ ہے یعنی اس جیسی امتیازی خصوصیات کا حامل اس سے پہلے کوئی نہیں ہو ا جیساکہ راغب نے مفردات میںصراحت کے ساتھ یہ معنی بیان کیا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت یحییٰ سے پہلے بہت سے بزرگ پیغمبر کزرگئے ہیں جو ان سے بالا تر اور افضل تھے ۔لیکن اس بات میں کوئی امرنہیں ہے کہ یحییٰ کچھ امتیاز ی خصوصیات رکھتے ہوں جو انہیں کے ساتھ مخصوص ہوں ۔جیسا کہ بعد میں اس کی طرف اشارہ ہوگا ۔
لیکن حضرت زکریا (علیه السلام) چونکہ ایسے مطلوب تک پہنچنے کے لیے ظاہر ی اسباب کو کارآمد نہیں سمجھتے تھے لہذا انہونے بار گاہ پرور دگار میں وضحت کا تقاضا کیا ۔انہونے کہا پرور دگار ا ! یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے وئی بیٹا نصیب ہو جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بھی سن وسال کے لحاض سے اس حد کو پہنچ گیا ہوں کہ بالکل بوڑھا اور ناکارہ ہوگیا ہوں (قال رب انی یکون لی غلام و کانت امراء تی عاقرً و قد بلغت من الکبرعیاً)
” عاقرً“ اصل میں عقر کے مادہ سے جڑ اور بنیاد کے معنی میں یا جیس یعنی بند ہوجانے کے معنی میں ہے اور یہ جو بانجھ عواتوں کو ”عاقر “ کہتے ہیں تو اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اوالاد کے قابل نہیں رہی ہو تیں یا یہ کہ ان کے بچہ کی پیدائش بند ہو گئی ہو تی ہے ۔
”عتی “ اس شخص کو کہتے ہیں کہ زیادہ عمر ہوجانے کے سبب سے بدن خشک ہو گیا ہو ۔وہی حات جو بہت زیاد ہ سن ر سیدہ ہونے کی وجہ سے انسان میں پیداہوجاتی ہے ۔
لیکن بہت جلدی حضرت زکریا (علیه السلام) کو ان کے سوال کے جواب میں بارگاہ خداوندی سے یہ پیغام مل گیا ”فرمایا : معاملہ اسی طرح ہے کہ جیسا تیرے پرور دگار نے کہا ہے اور یہ میرے لیے آسان بات ہے (قال کذالک قال ربک ھواعلی ھین ) ۔۱
یہ مسئلہ کوئی عجیب و غریب نہیں ہے کہ تجھ جیسے بوڑھے اور ظاہر اًبانجھ بیوی سے بچہ پیدا ہو اور میں نے تجھے پہلے پیدا کیا تھا جبکہ تو کچھ نہیں تھا (وقد خلقتک من قبل و لم تک شیئا)
وہ خداجو یہ قدرت و توانائی رکھتا ہے کہ بغیر کسی چیز کے تمام چیزوں کو پیدا کرے یہ کونسی تعجب کی بات ہے کہ اس سن و سال میں اور ان حالات میں تجھے فرزندعناےت کردے ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ پہلے آیات میں بشارت دینے والا اور کلام کرنے والا خداوند عالم ہے لیکن یہ کہ تیسری زیربحث آیت (قال کذالک قال ربک) میں گفتگو کرنے والاکو ن ہے ۔بعض اسے فرشتوں کی گفتگو سمجھتے ہیں کہ جو زکریا (علیه السلام) کو بشارت دینے کا ذریعہ بنے تھے اور اسورہ آل عمران کی آیت ۳۹ کو اس کا گواہ سمجھا جاسکتا ہے :۔
فناد تہ الملائکت و ھو قائم یصلی فی المحراب ان اللہ یبشرک یحییٰ
فرشتوں نے زکریا (علیه السلام) کو ندادی جبکہ وہ محراب میں کھڑے ہوئے تھے اور مشغول نماز تھے کہ خداتجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے ۔
لیکن ظاہر یہ ہے ان تمام جملوں کا کہنے والاخدا ہے اور کوئی دلیل ایسی نہیں ہے ک ہم اس کے ظاہر کے خلاف معنی کریں ۔اگر فرشتے بشارت دینے کے واسطے تھے تو بھی کوئی امر مانع نہیں ہے کہ خداتعالی ٰ اصل پیغام کو اپنی طرف نسبت دے ،خصوصاً جبکہ ہم اسی سورہ آل عمران کی آیہ ۴۰ میں یہ پڑھتے ہیں :
قال کذالک اللہ یفعل ماعشآئ
خدااسی طرح سے جوکچھ چہاتا ہے انجام دیتا ہے ۔
بہر حال حضرت زکریا (علیه السلام) بہت ہی مسرور رہوئے ،نور امید لئے ان کے سراپا کو گھیر لیا یہ پیغام ان کی نظر میں بہت ہی اہم اور ان کے مستقبل کو روشن کرنے ولاتھا، لہذاخداوند تعالیٰ سے اس کام کے لیے نشانی کا تقاضا کیا اور ” کہا پرور دیگار ا ! میرے لئے کوئی نشانی قراردے “ ( قال رب اجل لی اٰیة) ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت زکریا (علیه السلام)خدائی وعدہ پر ایمان رکھتے تھے اور وہ بالکل مطمئن تھے ۔لیکن جس طرح حضرت ابراھیم (علیه السلام) نے جو معاد پر ایمان کا مل رکھتے تھے زیادہ سے اطمینان قلب کی خاطر اسی زندگی میں معاد کی صورت کا مشاہدہ کرنے کا تقاضا کیا تھا اسی طرح زکریا (علیه السلام) نے بھی زیادہ سے زیادہ حصول اطمینان کے لئے اس قسم کی نشانی کا تقاضا کیا تھا ۔
خداوندتعالیٰ نے فرمایا : تمہاری نشانی یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ تمہا ری زبان صحیح و سالم ہے تم مکمل تین دن رات لوگوں سے گفتگو نہیں سکوگے اور تمہاری زبان صرف ذکرر خدااور اس سے مناجات کر سکے گے ( قال اٰیایتک ان لا تکلم النّاس ثلاث لیالی سویّاً) ۔
لیکن یہ کتنی عجیب غریب نشانی تھی یہ ایک ایسی نشانی تھی کہ جو ایک طرف تو اس کی مناجات و دعا کے ساتھ ہم آہنگ تھی اور دوسری طرف اس کو تمام مخلوق سے منقطع کرہی تھی اور خداکے ساتھ اس کا قائم کررہی تھی تاکہ اس حال میں اس عظیم نعمت کا شکربجالائے اور اسے زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ کی حمد ثناپر آمادہ کرے ۔
یہ ایک وضح اور آشکار نشانی ہے کہ انسان صحیح و سالم زبان رکھتے ہوئے اور پر ور دیگا ر کے ساتھ پر قسم کی مناجات و حمدو ثناکرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود لوگوں سے بات کرنے کی طاقت نہ رکھتاہو ۔
اس بشارت اور اس واضح نشانی کے بعد حضرت زکریا (علیه السلام) اپنی محراب عبادت سے لوگوں کے پاس آئے اور نہیں اشارہ کے ساتھ اس طرح کہا : صبح شام پرور دگار کی تسبیح کرو ( فخرج علیٰ قومہ من المحراب فاوحی الیھم ان سبحو بکرة عشیّاً) ۔
کیونکہ وہ عظیم نعمت جو خد اوند تولیٰ نے زکریا (علیه السلام) کو عاطا فرمائی تھی اس کی وسعت پوری قوم کے لئے تھی اور ان سب کے مستقل پر اثر اندا ز ہونےوالی تھی اسی بناپر اس لائق تھی کہ اس نعمت کے شکرانے میں سب کے سب خداوندتعالیٰ کی تسبح کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور خداوند تعاکی مدح ثناکریں اس سے بھی بڑ ھ کر بات یہ ہے کہ یہ عطاکہ جو ایک معجزہ تھی افراد بشر کے دلوں میں ایمان کی جڑیں راسخ کر سکتی تھی یہ بھی ایک اورنعمت تھی ۔
۱۔مفسرین کے درمیان مشہور یہ ہے کہ ” کذالک “ کا جملہ تقدیر میں ( لا مرکذالک) تھا یعنی مطلب اسی طرح ہے ۔یہ احتمال بھی ہے ک کذالک کا تعلق بعد والے جملے کے ساتھ ہوااور اس کا مفہون یہ ہوکہ اس طرح تیرے پرودگار نے کہا ہے ۔