۲۔ اذنادٰی ربہّ نداء خفیاکامفہوم
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ كهيعص ۱ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا ۲إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا ۳قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا ۴وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا ۵يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ۶
کۤھیعۤصۤ. یہ زکریا کے ساتھ تمہارے پروردگار کی مہربانی کا ذکر ہے. جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دھیمی آواز سے پکارا. کہا کہ پروردگار میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے کی آگ سے بھڑک اٹھا ہے اور میں تجھے پکارنے سے کبھی محروم نہیں رہا ہوں. اور مجھے اپنے بعد اپنے خاندان والوں سے خطرہ ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو اب مجھے ایک ایسا ولی اور وارث عطا فرمادے. جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو اور پروردگار اسے اپنا پسندیدہ بھی قرار دے دے.
۲۔ اذنادٰی ربہّ نداء خفیاکامفہوم : اس جملہ میں مفسرین کے لئے یہ سوال سامنے آیا ہے کہ ” نادٰی “ بلند آواز سے دعاکرنے کے معنی میں ہے جبکہ ”خفی “ آہستہ و مخفی کے معنی میں ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں لیکن اس نکتے کی فرف توجہ کرنے سے کہ ” خفی “ آہستہ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ پوشیدہ اور مخفی کے معنی میں ہے ،اس بناپر بات ممکن ہے کہ حضرت زکریا (علیه السلام) نے انی خلوت گاہ میں کہ جہاں ان کے علاوہ کوئی دوسرا موجود نہیں تھا خداوند تعالیٰ کو بلند آواز میں پکارا ہو بعض نے کہا کہ ان کی یہ درخوست رات کی تاریکی اور وسط شب میں تھی کہ جس وقت لوگ خواب غفلت میں آرام کرہے تھے (1) ۔
نیز بعض نے ( فخرج علی قومہ من المحراب ) ” زکریا (علیه السلام) اپنی محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے “ کہ جملہ کو ،کہ جو آیندہ کی آیات میں آئے گا اس دعا کے خلوت گاہ میں ہونے کی دلیل قراردیا ہے ۔(2)
۳۔ ویرث من اٰل یعقوب کا مطلب : ” مجھے ایسافرزند عنایت کر جو آل یعقوب کا وارث بنے ،کا جملہ اس بناپر ہے ،کہ زکریا (علیه السلام) کی بیوی حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کی والدہ جناب مریم کی خالہ تھی اور اس کاتون کا نسب حضرت یعقوب تک پہنچتا تھا ،کیونکہ وہ حضرت سلما ن بن داؤد کی اولاد میں سے تھیں جو ”یہود “ فرزند یعقوب کی اولاد میں سے تھے ۔۱۰
1۔تفسیر قرطبی جلد ۶ ،ذیل آیہ محل بحث ۔
2۔تفسیر المیزان جلد ۱۴ ،ذیل آیہ ۔