۱۔یہاں میراث سے کیا مراد ہے ؟
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ كهيعص ۱ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا ۲إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا ۳قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا ۴وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا ۵يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ۶
کۤھیعۤصۤ. یہ زکریا کے ساتھ تمہارے پروردگار کی مہربانی کا ذکر ہے. جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دھیمی آواز سے پکارا. کہا کہ پروردگار میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے کی آگ سے بھڑک اٹھا ہے اور میں تجھے پکارنے سے کبھی محروم نہیں رہا ہوں. اور مجھے اپنے بعد اپنے خاندان والوں سے خطرہ ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو اب مجھے ایک ایسا ولی اور وارث عطا فرمادے. جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو اور پروردگار اسے اپنا پسندیدہ بھی قرار دے دے.
۱۔یہاں میراث سے کیا مراد ہے ؟ مفسرین اسلام نے اس سوال کے بارے میں بہت بحث کی ہے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ یہا ں ارث سے مراد مال کی میراث ہے ، اور ایک گروہ اسے مقام نبوت کی طر ف اشارہ سمجھتا ہے ۔
بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس سے ایک ایسا جامع معنیٰ مراد ہے جس میں دونو مفاہیم شامل ہیں ۔
بہت سے شیعہ علماء نے پہلے معنی کو انتخاب کیا ہے جبکہ علماء اہل سنّت کی ایک جماعت نے دوسرے معنی کو ،اور بعض نے جیسا کہ سیّد قطب نے ”فی ظلال “ میں اور آلوسی نے ” روح المعانی “ میں تیسرے معنی کو انتخاب کیا ہے ۔
جن لوگوں نے اسے ارث مال میں منحصر سمجھا ہے ،انہوں نے یہ معنی مراد لینے میں لفظ ”ارث “کے کے ظاہر سے استناد کیا ہے کیو نکہ یہ لفظ جب تک دوسرے قرائن سے خالی ہو تو ارث مال ہی کے معنی دیتا ہے اور اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کی چند ایک آیات میں یہ لفط معنوی امور میں استعمال ہو ا ہے ،تو یہ ان میں موجود قرئن کی بناپر ہے : مثلاً سورہ فاطر کی آیت ۳۲:۔
ثمہ اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا ۔
ہم نے آسمانی کتاب کو اپنے بز گزیدہ بندوں کی طرف بطور ارث منتقل کیا ہے ۔
علاوہ ازین چند ایک روایت سے معلوم ہو تا کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل بہت سے ہدایا اور نذریں ” احبار “ (علماء یہود کے لیے لاتے تھے اور حضرت زکریا احبار کے سردار تھے ۔1
اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ حضرت زکریا کی زوجہ جو کہ حضرت سلمان (علیه السلام) بن داؤد کی اولاد میں سے تھیں ،حضرت سلمان (علیه السلام) اور داؤد (علیه السلام) کی مالی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے بہت سے اموال میراث میں پائے تھے ۔
حضرت ذکریا (علیه السلام) اس بات سے خوفزدہ تھے ،کہ مبادایہ مال غیرصالح ،مطلب پرست ،ذخیرہ اندوزیافاسق و فاجر افراد کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے اور وہ معاشرہ میں برائی کی ترویج کریں لہذااپنے پرور دگار سے صالح اور نیک بیٹے کی درخواست کی تاکہ وہ ان اموال کی نگرانی کرے اور انہیں بہتریں طریقہ سے خرج کرے ۔
وہ مشہور روایت ،کہ جو پیغمبر اسلام کی پاک بیٹی جناب فاطمہ (علیه السلام) زہراسے فدک لینے کے سلسلے میں،خلیفہ اوّل کے سامنے ،اس آیت سے استدلا ل کے بارے میں نقل ہوئی ہے ،خود اس دعوے کی ایک شاید ہے ۔
مرحوم طبرسی کتاب احتجاج میں بانو ئے اسلام حضرت فاطمہ (علیه السلام) زہراسے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ: جس وقت خلیفئہ اول نے فدک کو جناب فاطمہ (علیه السلام) سے چین لینے کا مصمم اراوہ کر لیا اور ایہ خبر اس بی بی تک پہنچی تو آپ اس کے پاس آئیں اور اس طرح فرمایا:اے ابابکر !
افی کتاب اللہ ان ترث اباک ولاارث ابی لقد جئت شیئافریّا ؟ افعل عمد ترکتم کتاب اللہ ونبذ تمرہ وراء ظھورکم ؟ اذ یقول فیما اقتص من خیر یحییٰ بن زکریا :اذقال ربّ ہب لی من لدنک ولیاً یرثنی ویر ث من اٰل یعقوب ۔
”کیا یہ بات کتاب خدامیں لکھی ہوئی ہے کہ توتو اپنے باپ کی میراث پائے اور میں اپنے باپ کی میراث نہ لو ں یہ تو عجیب وغیرب چیز ہے ،کیا تم لوگوں نے جان بوجھ کر کتاب خداکو چھوڑ دیا ہے اور اسے پس پشت ڈال دیا ہے ؟ جبکہ وہ یحییٰ بن زکریا کے قصّہ میں کہتا ہے کہ ” زکریا نے کہا خداوندا !تومجھے اپنی طرف سے جانشین عطافرما تاکہ وہ میراآل یعقوب کا وارث ہو ۔۶
لیکن وہ لوگ کہ جن کا یہ نظریا ہے ،کہ یہاں پر وہی معنوی معنی مراد ہے تو انہونے ایسے قرائن سے ، جو خود آیت میں یا اس سے باہر ہیں تمسک کیا ہے مثلاً :۔
۱۔ یہ کہ یہ بات بعید نظر آتی ہے کہ حضرت زکریا (علیه السلام) جیسے عظیم پیغمبر اس سن وسال میں اپنی ثروت کے وارثوں کے بارے میں اس قدر فکر مند ہوں خصوصاً جبکہ ” یرثی ویرث من الی یعقوب “ کے جملوں کے ذکر کرنے کے بعد اس جملہ کا اضافہ کرتے ہیں (واجعلہ ربّ رضیّاً) ”خداوند اسے اپناپسندیدہ بنا “ اس میں شک نہیں کہ جملہ اس وارث کی معنوی صفات کی طرف اشارہ ہے ۔
۲۔ آیندہ آیات میں جہاں خداوندتعالیٰ انہیں یحییٰ کے پیداہونے کی بشادت دیتا ہے وہاں عظیم معنوی مقامات کے منجملہ مقام نبوّت کا اس کے لیے ذکر کرتا ہے ۔
۳۔ سورہ آل عمران کی آیت ۳۹میں جبکہ خداوند تعالیٰ زکریا (علیه السلام) کی طرف سے فرزند کے تقاضے کی تشریح میںیہ اشارہ کرتے ہے کہ وہ اس وقت اس سوچ میں پڑے کہ جب انہونے جناب مریم (علیه السلام) کے مقامات اور مراتب کا مشاہدہ کیا کہ پرور دگار کے لطف و کرم سے جنت کے کھانے اور پھل ان کی محراب عبادت پر آجاتے تھے ۔
ھنالک دعازکریا ربہ قال ھب لی من لدنک ذریة طیبة انک سمیع الدعاء
۴۔چند ایک احادیث میں پیغمبر اکرم سے نقل ہواہے جو اس بات کی تائید کرتا ہے کہ مراث یہاں معنوی پہلوکی طرف اشارہ ہے اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کے امام صادق (علیه السلام) پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیه السلام) ایک ایسی قبر کے نذدیک سے گزرے کہ جس میں موجود شخص عذاب میں گرفتا ر تھا ۔
اگلے سال بھی آپ کا گزر وہاں سے ہو ا تو آپ نے ملاحظ کیا کہ وہ صاحب قبر عذاب میں امتلانہیں ہے تو انہوں نے اپنے پرور دگارسے اس بارے سوال کیا توان کی طرف خداوند تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی کہ صاحب قبر کا ایک نیک بیٹا تھا اس نے ایک راستہ درستہ کیا تھا اور ایک یتیم کو پناہ دی تھی خداوندتعالی نے اس کے بیٹے کے اس عمل کی وجہ سے بخش دیا ہے اس کے بعد پیغمبر اکرم نے فرمایا :
خداوند تعالیٰ کہ اس کے مومن بندسے کے لیے میراث یہ ہے کہ اسے ایسابیٹا دے کی جو اس کے بعد حکم خداکا مطیع وفرنبردارہو۔
اس کے بعد حضرت امام صادق (علیه السلام) نے اس حدیث کے نقل کرنے کے موقع پر حضرت زکریا (علیه السلام) یا سے متعلق آیت کی تلاوت فرمائی :
ھب لی من لدنک ولیاً یرثنی ویرث من اٰل یعقوب وجعلہ ربّ رضیّا ۔3ً
اور اگر یہ کہاجائے کہ لفظ ارث کا ظاہری وہی میراث اموال ہے تو وہ جواب میں کہیں گے یہ ظاہر ی معنی قطعی و یقینی نہیں ہے کیوں کہ قرآن میں بارہا معنوو ارث میں استعمال ہواہے ( مثلاً سورہ فاطر کی آیتہ ۳۲ اور سوہ مومن کی آیہ۵۳ ) ۔
علاوہ ازین اگر فرض کریں کہ خلاف ظاہرہوتو قرائن بالاکے ہوتے ہوئے کوئی مشکل باقی نہیں رہتی ۔
لیکن پہلے نظر یے والے استدلالات کا جواب دے سکتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ کے یہ عظیم پیغمبر اموا ل کے بارے میںذاتی غرض سے پریشان نہ تھے بلکہ وہ اسے معاشرے کے لیئے برائی کا منبع نہیں بننے دینا چاہتے تھے ان کی غرض یہ تھی کہ یہ صلاح ودرستی کے راستے میں استعمال ہوکیونکہ عبیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے ،کہ (بنی اسرائیل ) احبار وعلماکے لیے بہت زیادہ ہدیے اور نذریں لاتے تھے کہ جو حضرت زکریا(علیه السلام) کے سپرد ہوتی تھیں اور شاہد بہت سے اموا ل ا ن کی بیوی کی طرف سے بھی کہ جو حضرت سلمان (علیه السلام) کی اولاد میں سے تھی باقی رہ گئے تھے ،اب یہ بات صاف طور پر واضح ہے کہ ان (اموال ) کے اوپر ایک غیر صالح شخص کا ہونا عظیم مفاسد کا سبب ہوتا ہے ۔اور یہی چیز تھی کہ جس نے حضرت زکریا(علیه السلام) کو پریشان کررکھاتھا ۔
باقی رہیں حضرت یحییٰ (علیه السلام) کے لئے معنوی صفات کہ جو اس آیت میں اور دوسری آیات قرآن میں ذکر ہوئی ہیں ،وہ نہ صرف یہ کہ اس بات کے معانی نہیں بلکہ وہ اس سے ہم آہنگ بھی ہیں ۔کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ یہ عظیم ثروت ایک مردخداپر ست اور ہرگز یدہ الہیٰ کے ہاتھ میں جائے اور وہ اس سے معاشرے کو سعادت کی راہ پر چلانے کے لیے استفادہ کرے۔
لیکن ہمارے نظریے کے مطابق اگر ہم اوپر کی مجموعی بحث سے یہ نتیجہ نکالیں کہ لفظ یہاں پروسیع مفہوم رکھتا ہے کہ جس میں ارث اموال بھی شامل ہے اور مقامات معنوی کی میراث بھی تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہوگی کیونکہ ہرطرف کے لیے قرائن موجود ہیں اور قبل و بعد کی آیات اور تمام تر وآیات کی طرف توجہ کرنے سے یہ تفسیر کا مل طورپر صحیح مفہوم کے قریب نظر آتی ہے ۔
باقی رہا ( انی خفت الموال من ورائی ) ” مجھے اپنے بعد اپنے رشتہ داروں کا ڈر ہے “ کا جملہ تو وہ دونوں معانی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ اگر فاسد اور اپر ے لوگ ان اموال میں صاحب اختیار ہو جاتے تو واقعاً یہ پرشانی کرنے والی بات تھی اور اگر رہبری و ہدایت غیر صالح افرادکے ہاتھ جاپڑتی تو بہت ہی پریشانی اور مصیبت کا سبب بنتی ۔اس بناپر حضرت زکریا (علیه السلام) کا خوف ددونو ں صورتوں میں قابل توجہ ہے ۔
بانوئے اسلام حضرت فاطمہ زہرا(علیه السلام) کی مشہور حدیث بھی اس معنی کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔
1۔نوراثقلین ،جلد ۳ ، ص نمبر ۳۲۳۔
2۔نوراثقلین ،جلد ۳ ، ص نمبر ۳۲۴۔
3۔نوراثقلین ،جلد ۳ ،ص ۳۲۳۔۳۲۴۔