Tafseer e Namoona

Topic

											

									  حضرت زکریا کی پراثر دعا

										
																									
								

Ayat No : 1-6

: مريم

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ كهيعص ۱ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا ۲إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا ۳قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا ۴وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا ۵يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ۶

Translation

کۤھیعۤصۤ. یہ زکریا کے ساتھ تمہارے پروردگار کی مہربانی کا ذکر ہے. جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دھیمی آواز سے پکارا. کہا کہ پروردگار میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے کی آگ سے بھڑک اٹھا ہے اور میں تجھے پکارنے سے کبھی محروم نہیں رہا ہوں. اور مجھے اپنے بعد اپنے خاندان والوں سے خطرہ ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو اب مجھے ایک ایسا ولی اور وارث عطا فرمادے. جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو اور پروردگار اسے اپنا پسندیدہ بھی قرار دے دے.

Tafseer

									پھر اس سورہ کی ابتداء میں ہمیں حروف مقطعہ کا سامنا ہے ” کھٰیٰعص“ اور چونکہ ہم سابقاقرآن کی تین مختلف سورتوں (سورہ بقرہ ،سورہ آل عمران ،اور سورہ اعراف ) کی ابتدامیں حروف مقطعہ کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بحث کر چکے ہیں لہذا ہم یہاں پر تکرار کی ضرورت نہیں سمجھتے(۱) ۔
پہلی روایت تو وہ ہیں کہ جو ان حروف مقطعہ میں سے ہر ایک کو خداوند تعالیٰ کے عظیم اسماء حسنیٰ میں سے ایک ایک اسم کی طرف اشارہ قرار دیتی ہیں ”کاف ‘ ‘ اشارہ ہے ”کافی “ کی طرف ک جوخداوند تعالیٰ کا ایک عظیم نام ہے ”ھ“ اشارہ ہے ”ھادی “ کی طرف ”یاء“ اشارہ ہے ”ولی “ اور ”عین “اشارہ ہے ”عالم “ کی طرف اور” ص “اشارہ ہے ”صادق الواعد “ (وہ جو اپنے وعدہ کا سچّاہے )کی طرف (۲) ۔
دوسری قسم ان روایات کی ہے کہ جو ان حروف مقطعہ کی کربلا میں امام حسین (علیه السلام) کے قیام کی داستاں کے ساتھ تفسیر کرتی ہیں ان کےس مطابق ”کاف “ اشارہے ”کربلا“کی طرف ”ھاء“اشارہ ہے خاندان پیغمبر اکرم کے ہلاک اور شہید ہونے کی طرف اور ” یا“ یزید کی طرف اور ”عین “ مسئلہ عطش (پیاس ) کی طرف اور ”ص“ امام حسین (علیه السلام) اور ان کے جانبازیاروانصار کے ”صبر “ واستقامت کی طرف (۳) ۔
البتہ جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں قرآن مجید کی آیات مختلف معانی کی حامل ہو سکتی ہیں اور بعض اوقات گزشتہ اور آیند ہ کے مفاہیم بیا ن کرتی ہیں ک جومتنوع ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے اختلاف نہیں رکھتے جبکہ اگر معنیٰ کو ایک تفسیر میں منحصر کردیں توہوسکتا ہے کہ ہم آیت کی فضع کیفیت نزول اور اس کے زمانے کے لحاظ سے کئی ایک اشکال میں گرفتار ہوجائیں ۔
حروف مقطعہ کے ذکر کے بعد سب سے پہلی بات حضرت زکریا کی داستان سے شروع ہوتی ہے ۔خدافرماتا ہے : یہ یاد ہے اس رحمت کی جو تیرے پروردگار نے اپنے بندے زکریا پر کی (فکر رحمةربک عبدہ زکریا ) ۔۴
”ھذاذکررحمةربک“
اس وقت جبکہ وہ کوئی فرزند نہ ہو نے کی وجہ سے سخت پریشان اور غمناک تھے تو انہونے درگاہ خداکی طرف رخ کیا ،اس وقت خلوت گاہ میں اور وہاں پر کہ جہاں کوئی ان کی آواز نہیں سن رہاتھا اپنے پرور دگار کو پکارا اور اس سے دعاکی (اذنادٰی ربہ نداء خفیاً ) ۔
”اس نے کہا پرور دگار ا ! میری ہڈیاں جومیرے جسم کا ستون اور میرے بدن کا محکم ترین اعضاء ہیں کمزور ہو گئے ہیں (قال رب انی وھن العظم منی)اور بڑھاپے کے شعلوں نے میرے سر کے تمام بالوں کو گھیرلیا ہے (واشتغل الرائس شیباً ) بڑھاپے کے آثار کو ایسے شعلے سے تشبیہ دینا کہ جو تمام سر کو گھیر لے ایک جاذب نظر اور غمدہ تشبیہ ہے ۔کیوں کہ ایک طرف تو آگ کے شعلہ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ جلدی پھیل جاتا ہے اور جو کچھ اس کے اطراف میں ہواسے گھیر لیتا ہے اور دوسری طرف آ گ کے شعلے ایک خاص قسم کی روشنی اور چمک کے حامل ہوتے ہیں اور دور سے توجہ مبندول کراتے ہیں اور تیسری طرف جس وقت آگ کسی جگہ کو گھیر تی ہے جو چیز اس سے باقی رہ جاتی ہے وہی خاکستر ہی ہو تی ہے ۔
حضرت ذکریا نے بڑھاپے کے گھیر لینے اور سر کے تمام بالوں کی سفیدی کو آگ کے شعلہ ور ہونے اور اس کے چمکنے اور سفیدی خاکستر کو اس کی جگہ پر باقی رہنے کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور یہ تشبیہ بہت ہی رسااور زیباتشبیہ ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتے ہیں :۔میں ہر گز ان دعاؤں میں ، جو میں نے تیری بارگاہ میں کبھی کی ہیںمحروم نہیں پلٹا (اولم اکن بدعائک رب شقیاً )گزشتہ زمانے میں تونے مجھے ہمیشہ دعاؤ ں کی اجازت وقبولیت کا عادی بنا یا ہے اور مجھے محروم نہیں کیا ۔اب جبکہ میں بوڑھاہوگیاہوں اور ناتواں ہو گیا ہوں تو اب اور بھی زیادہ اس بات کا حقدار ہوں کہ تو دعاقبول فرمائے اور مجھے نا امید نہ پلٹائے ۔
حقیت میں ”شقادت “ یہاں پر تعب اور رنج و تکلیف کے معنیٰ میں ہے یعنی میں کبھی اپنی در خواستوں میں تجھ سے زحمت و مشقت میں نہیں پڑا کیونکہ وہ جلدی تیری بارگاہ میں قبول ہو جایا کرتی تھیں ۔
اس کے بعد اپنی حاجت کی اس طرح تشریح کر تے ہیں : پروردگارا ! میں اپنے بعد اپنے عزیز و اقاب سے خوفزدہ ہیں (ہو سکتا ہے وہ فتنہ فساد سے اپنے ہاتھ آلودہ کریں ) اور میری بیوی بانجھ ہے ،تو اپنی طرف سے مجھے ولی جانشین بخش دے ۔
(وانی خفت الموالی من ورائی وکانت امراء تی عاقرافھب لی من لدنک ولیّاٰ)
ایساجانشین کہ جو میرابھی وارث بنے اور اسی طرح آل یعقوب کا بھی وارث ہو ۔ پرور دگا ر ا ! میرے اس جانشین کو اپنا پسندیدہ بنا ۔
(یر ثنی ویرث من اٰل یعقوب و اجعلہ ربّ رضیّاً)