اخلاص یا عملِ صالح کی روح
قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا ۱۰۹قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ۱۱۰
آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کے کلمااُ کے لئے سمندر بھی روشنی جائیں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہوجائیں گے چاہے ان کی مدد کے لئے ہم ویسے ہی سمندر اور بھی لے ائیں. آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارا ہی جیسا ایک بشر ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا ایک اکیلا ہے لہذا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ بنائے.
اخلاص یا عملِ صالح کی روح
اسلامی روایات میں ”نیت“کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔ اسلام کا یہ بنیادی اصول ہے کہ وہ ہر عمل کو اس کی نیت اور مقصد کے ساتھ قبول کرتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے:
”لا عمل الّہ بالنیّة“
نیت کے بغیر کوئی عمل نہیں ۔
یہ حدیث اسی حقیقت کی ترجمان ہے ۔
نیت کے بعد اخلاص کی باری آتی ہے ۔ اگر وہ ہو، تو عمل بہت اہمیت اور قیمت رکھتا ہے ورنہ اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی ۔
اخلاص یہ ہے کہ محرکِ انسان ہر قسم کے غیر الٰہی شائبہ سے پاک ہو اور اسے ”توحید نیت“کہتے ہیں یعنی ہر کام میں صرف رضائے الٰہی کو ملحوظ رکھا جائے ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ زیرِ بحث آیت کی شانِ نزول کے بارے میں منقول ہے:
ایک شخص رسول اللہ (ص) کی خدمت میں آیا ۔ اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! میں راہِ خدا میں خرچ کرتا ہوں، صلہ رحمی کرتا ہوں اور یہ اعمال صرف اللہ کے لیے بجالا تا ہوں لیکن جب لوگ میرے ان اعمال کے بارے میں بات کرتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں تو مجھے خوشی ہوتی ہے ۔ میرے یہ اعمال کیسے ہیں؟
رسول اللہ خاموش رہے اور کچھ نہ کہا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں اس شخص کے سوال کا جواب دیا گیا (کہ صرف وہ مقبول بارگاہِ الٰہی ہوگا کہ جو اخلاص کامل کے ساتھ بجالا یا جائے گا) ۔(1)
اس میں شک نہیں کہ یہ روایت غیر اختیاری مسرت کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ لوگوں کی طرف سے کسی کام کی تعریف، اس کے کرنے کا سبب نہ ہو۔
اسلام میں اخلاص ، عملِ خالص اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
”من اخلص للّٰہ اربعین یوماً فجر اللّٰہ ینابیع الحکمة من قلبہ علیٰ لسانہ“
جو شخص چالیس دن اپنے اعمال خالص اللہ کے لیے انجام دے تو اللہ اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت و دانش کے چشمے جاری کردے گا ۔(2)
پروردگارا! تمام اعمال میں ہماری نیت کو اس طرح سے خالص کردے کہ ہم تیرے علاوہ کسی کے لیے نہ سوچیں اور تیرے علاوہ کسی کے لیے قدم نہ اٹھائیں ۔
اور اگر تیرے علاوہ کسی کو چاہیں تو وہ بھی تیری رضا کے لیے ہو اور اس لیے ہوکہ اس کا تجھ سے تعلق ہے ۔
آمین یا رب العالمین
۱۔ مجمع البیان، مذکورہ بالا آیت کے یل میں، نیز تفسیر قرطبی، اسی آیت کے ذیل میں ۔
2۔ سفینة البحار، ج ۱ ص ۴۰۸․