لامتنا ہی کی تصویر کشی
قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا ۱۰۹قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ۱۱۰
آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کے کلمااُ کے لئے سمندر بھی روشنی جائیں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہوجائیں گے چاہے ان کی مدد کے لئے ہم ویسے ہی سمندر اور بھی لے ائیں. آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارا ہی جیسا ایک بشر ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا ایک اکیلا ہے لہذا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ بنائے.
اس مقا م پر قرآن مجید ن لامتنا ہی تعداد کا تصور، الله کے علم بے پایان کا مفہوم اورجہانِ ہستی کی وسعت کو ہمارے افکار و اذہان سے قریب کرنے کے لیے بہت ہی فصیح و بلیغ انداز اختیار کیا ہے اور زندہ و جاندار اعداد سے استفادہ کیا ہے ۔
لیکن کیا اعداد بھی زندہ اور مردہ ہوتے ہیں؟
جی ہاں! وہ اعداد جو ریاضیات میں استعمال ہوتے ہیں ۔ صحیح اعداد کی دائیں طرف بہت سارے صفر لگا کر جو اعداد بنتے ہیں درحقیقت مردہ اعداد ہیں ۔ وہ ہرگز کسی چیز کی عظمت مجسم نہیں کرتے ۔
جن لوگوں کا ریاضیات سے تعلق ہے وہ جانتے ہیں اگر ایک کے دائیں طرف ایک کلومیڑ تک صفر لگادیئے جائیں تو یہ بہت بڑا اور پریشان کن عدد بن جائے گا اور واقعاً اس کی بڑائی کا تصور مشکل ہے لیکن کن اشخاص کے لیے؟۔ ریاضی دانوں کے لیے ۔ جبکہ عام لوگوں کے لیے اس سے کوئی عظمت محسم نہیں ہوتی ۔
زندہ عدد وہ ہے جو جہاں تک خود آگے بڑھے ہماری فکر کو بھی اپنے ساتھ لے جائے اور جس طرح کی حقیقت ہے اسے اسی طرح نظروں کے سامنے مجسم کردے ۔ ایسا عدد زندہ ہے جوروح رکھتا ہو، عظمت رکھتا ہو اور زبان رکھتا ہو۔
قرآن یہ نہیں کہتا کہ عالم ہستی کی وسعت کی خا کی مخلوقات اس عدد سے بھی زیادہ ہیں کہ جس کی دائیں طرف ایک سو کلومیٹر تک صفر لگے ہوں بلکہ قرآن کہتا ہے کہ اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندرو سیاہی بن جائیں تو قلمیں ختم ہوجائیں گی اور سیاہی تمام ہو جائے گی لیکن عالم ہستی کے حقائق و اسرار، موجودات عالم اور معلومات الٰہی ختم نہیں ہوں گی ۔
خوب غور کیجئے ۔ ایک قلم لکھنے کی کس قدر طاقت رکھتا ہے ۔ پھر غور کیجئے ۔ ایک درخت کی ایک چھوٹی سی شاخ سے کتنے قلم بنتے ہیں ۔ پھر ایک تنومند بہت بڑے درخت سے کتنے ہزار یا کتنے لاکھ قلم بنیں گے ۔ پھر روئے زمین پر باغوں اور جنگلوں میں موجود سارے درختوں پر ایک نظر ڈالیں اور ان سے جو قلم تیار ہو سکتے ہیں ۔ ان کا انداز کیجئے ۔
اب سوچیے ۔ سیاہی کے ایک قطرے سے کتنے لفظ لکھے جاسکتے ہیں پھر اس عدد کو ایک تالاب کے قطروں سے ضرب دیجئے ۔ اسی طرح ایک دریا، ایک سمندر کا حساب کیجئے اور آخر کار روئے زمین کے تمام دریاؤں اور سمندروں کے قطروں کا اندازہ کیجئے ۔ اب دیکھئے کیسا عجیب و غریب عدد بنتا ہے ۔
اس بات کی عظمت اور بھی واضح ہوگی جب ہم اس حقیقت کی طرف توجہ دیں کہ ”سبع“ (سات) کا عدد یہاں تعداد کے لیے نہیں بلکہ تکثیر کے کے مفہوم میں آیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے دریا اور سمندر اور بھی آملیں اور سیاہی بن جائیں تو بھی کلماتِ الٰہی ختم نہیں ہوں گے ۔
غور کیجئے کہ یہ عدد کس قدر زندہ اور جاندار ہے ۔ یہ وہ عدد ہے جو فکرِ انسانی کو اپنے ساتھ ساتھ لیے چلتا ہے اور لامتناہی عدد کی طرف آگے لے جاتا ہے ۔
یہ ایسا عدد کہ ریاضی دان ہو یا کوئی ان پڑھ۔ اس کی عظمت کا ادراک کرسکتا ہے اور اس کی وسعت اور بڑائی سے آشنا ہوسکتا ہے ۔
جی ہاں! علمِ خدا اس عدد سے بھی بالاتر ہے ۔
اس کا علم۔ لامحدو اور بے انتہا ہے ۔
ایسا علم کہ جس کی قلمرو۔ تمام عالمِ ہستی ہے ۔ اِس میں تاریخ عالم کا ماضی بھی ہے اور مستقبل بھی اور اس میں تمام اسرار و حقائق موجود ہیں ۔
زیرِ نظر دوسری آیت سورہٴ کہف کی آخری آیت ہے ۔ یہ دینی عقاء کے بنیادی اصولوں کا مجموعہ ہے ۔ اس میں توحید، رسالتِ پیغمبر اور معاد سب کا ذکر موجود ہے ۔ در حقیقت سورہٴ کہف کی ابتدا بھی اسی سے ہوئی تھی ۔ ابتداء میں بھی اللہ، وحی ، عمل کی جزاء اور قیامت کے بارے میں گفتگو تھی ۔ اس سورت کا اہم حصہ چونکہ انہی تین موضوعات پر مشتمل ہے اس لحاظ سے یہ آخری آیت اس سورت کا خلاصہ ہے ۔
نبوت کے بارے میں پوری تاریخ انسانی میں بہت غلو اور مبالغہ ہوا ہے اس لیے قرآن کہتا ہے: کہہ دو : میں تو تم جیسا ایک بشر ہوں ۔ میرا امتیاز اور خصوصیت صرف یہ ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے (قُلْ اِنَّما اَنا بَشَرٌ مِّثلُکُمْ یُوحٰی اِلَیَّ) ۔
یہ کہہ کر قرآن نے ان تمام مشرکانہ خیالی امتیازات پر خطِ بطلان کھینچ دیا ہے کہ جو انبیاء کو مرحلہ بشریت سے مرحلہ الوہیت کی طرف لے جاتے ہیں ۔
اس کے بعد جن مسائل کی انبیاء پر وحی ہوتی ہے ان میں سے مسئلہ توحید کی نشاندہی کی گئی ہے: مجھ پر وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے (اَنَّما اِلٰہُکُم اِلٰہٌ وَُاحِدٌ) ۔
صرف اسی مسئلہ کی طرف اشارہ کیوں کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ توحید تمام عقائد اور انسانوں کے لیے تمام سعادت بخش انفرادی و اجتماعی پروگراموں کا نچوڑ ہے ۔
ہم نے ایک اور جگہ بھی کہا ہے کہ توحید فقط اصولِ دین میں سے ایک اصل ہی نہیں بلکہ اسلام کے تمام اصول و فروع کی روح ہے ۔
اگر دینی تعلیمات کو موتیوں کی لڑی کہا جائے تو توحید کو وہ دھاگا کہیں گے جوان موتیوں کو باہم ملائے رکھتا ہے ۔ لہٰذا کہنا چاہیے کہ توحید وہ روح ہے جو اس پیکرِ اسلام میں پھونکی گئی ہے ۔
معاد و نبوت کی بحثوں میں یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ یہ مسائل توحید سے جدا نہیں ہیں یعنی اگر اللہ کو ہم اس کی صفات کے ساتھ پہچان لیں تو پھر ہم جان لیتے ہیں کہ ایسے خدا کو نبی بھیجنے چاہئیں نیز اس کی حکمت و عدالت کا تقاضا ہے کہ کوئی عدالت برپا ہو اور قیامت وجود پذیر ہو۔
اجتماعی مسائل ، پورا انسانی معاشرہ اور جو کچھ اس سے مربوط ہے اسے توحید وحدت کے سائے میں ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے لوازمات سے آراستہ ہوسکے ۔
یہی وجہ ہے کہ احادیث میں ہے کہ:
”لا الٰہ الّا اللّٰہ“ پروردگار کا محکم قلعہ ہے جو شخص اس میں داخل ہوگیا وہ عذاب ِ الٰہی سے مامون ہوگیا ۔
نیز ہم سب نے سن رکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابتدائے اسلام میں فرماتے تھے:
”قولوا لا الٰہ الّا اللّٰہ تفلحوا“
اگر فلاح کے طالب ہو تو پرچمِ توحید کے تلے جمع ہوجاؤ۔
اس آیت کا تیسرا جملہ مسئلہ قیامت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ”فاء تفریع“کے ذریعے اسے مسئلہ توحید سے منسلک کردیتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: لہٰذا جو شخص بھی اپنے رب کی لقاء کا امیدوار ہے اسے چاہیے کہ عملِ صالح انجام دے (فَمَنْ کَانَ یَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا) ۔
لقائے پروردگار در اصل اس کی ذاتِ پاک کا باطنی مشاہدہ ہے ۔ یہ دل کی آنکھ اور داخلی بصیرت سے ہوتا ہے ۔ اگر چہ اس دنیا میں بھی حقیقی مومنین کے لیے یہ ممکن ہے لیکن یہ معاملہ چونکہ بہت روشن، زیادہ واضح ہوکر عمومیت اختیار کرلے گا لہٰذا قرآن میں یہ تعبیر زیادہ تر روزِ قیامت کے بارے میں استعمال ہوئی ہے ۔ دوسری طرف یہ امر فطری ہے کہ اگر انسان کسی کے انتظار میں ہے اور اسے اس کی امید ہو تو وہ اس کے استقبال کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے گا ۔
جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں فلاں چیز کے انتظار میں ہوں لیکن اس کے عمل میں اس کا اثر نہ ہوتو اس کا دعویٰ غلط ہے ۔ اسی لیے ”فلیعمل عملاً صالحاً“
یہاں صیغہٴ امر آیا ہے ۔ وہ امر کہ جو لقائے الٰہی کی امید اور انتظار کا لازمہ ہے ۔
آخری جملے میں عمل صالح کی حقیقت کو مختصر طور پر اس طرح واضح کیا گیا ہے: کسی کو پروردگار کی عبادت میں شریک نہیں کرنا چاہیےٴ (وَلَایُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّہِ اٴَحَدً) ۔
زیادہ واضح لفظوں میں ۔ جب تک عمل میں خلوص پیدا نہ ہو وہ صالح نہیں ہوسکتا اور الٰہی اور خدائی رنگ اختیار نہیں کرسکتا ۔ خلوصِ انسانی عمل کو گہرائی بخشتا ہے، نور نیت عطا کرتا ہے اور صحیح سمت دیتا ہے اور خلوص ختم ہوجائے تو عمل زیادہ تر ظاہری پہلو اختیار کرلیتا ہے اور اس کا جھکاؤ ذاتی مفاد کی طرف ہوجاتا ہے ۔ ایسا عمل گہرائی اور صحیح سمت کھو بیٹھتا ہے ۔
در حقیقت وہ عملِ صالح جس کا سرچشمہ رضائے الٰہی ہو اور جو اخلاص گوندھا ہوا ہو وہ لقائے الٰہی کا پاسپورٹ ہے ۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ عملِ صالح وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ اس میں تمام انفرای و اجتماعی مقید ، اصلاحی اور تعمیری کام شامل ہیں چاہے وہ زندگی کے کسی پہلو سے متعلق ہوں ۔