Tafseer e Namoona

Topic

											

									  جو لقائے الٰہی کی امید رکھتے ہیں

										
																									
								

Ayat No : 109-110

: الكهف

قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا ۱۰۹قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ۱۱۰

Translation

آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کے کلمااُ کے لئے سمندر بھی روشنی جائیں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہوجائیں گے چاہے ان کی مدد کے لئے ہم ویسے ہی سمندر اور بھی لے ائیں. آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارا ہی جیسا ایک بشر ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا ایک اکیلا ہے لہذا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ بنائے.

Tafseer

									جو لقائے الٰہی کی امید رکھتے ہیں

جو آیات مستقل اور جاری بحث کا حصّہ ہیں اور ان کا تعلق اِس سورت کے تمام مباحث سے ہے ۔ کیونکہ اس سورہ میں مذکورہ تینوں اہم واقعات نئے او رعجیب و غریب مطالب سے پردہ ہٹاتے ہیں ۔ گویا قرآن ان آیات میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدا کے علم کے مقابلے میں اصحابِ کہف، موسیٰ و خضر اور ذوالقرنین کے واقعات سے آگاہی کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ تمام کائنات اور عالمِ ہستی کا ماضی، حال اور مستقل اس کے علم کا حصہ ہیں ۔
بہر حال قرآن زیرِ بحث پہلی آیت میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے کہتا ہے: کہہ دو: اگر سمندر میرے رب کے کلمات لکھنے کے لیے سیاہی بن جائیں تو سمندر ختم ہوجائیں گے، میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے اگر چہ ہم ان جیسے سمندروں کا اضافہ بھی کردیں (قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اٴَنْ تَنفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدا) ۔
”مَدَدا“ سیاہی کے معنی میں ہے یا پھر اس کا معنی ہے وہ رنگین مادہ جس کے ساتھ لکھا جائے ۔ در اصل یہ لفظ ”مد“ بمعنی ”کشش“ سے لیا گیا ہے کیونکہ اس کی کشش سے خطوط آشکار اور واضح ہوتے ہیں ۔(1)

”کلمات“(کلمہ کی جمع) ان الفاظ کے معنی میں ہے کہ جن کے ذریعے بات کی جاتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ وہ لفظ ہے جو معنی پر دلالت کرتا ہے ۔ اس جہان کی ہر چیز کیونکہ پروردگار کے علم و قدرت پر دلالت کرتی ہے لہٰذا بعض اوقات ہرموجود پر ”کلمة اللہ“ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ زیادہ تر یہ تعبیر اہم اور با عظمت موجودات کے لیے استعمال ہوئی ہے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن حکیم کہتا ہے:
<إِنَّمَا الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُولُ اللهِ وَکَلِمَتُہُ اٴَلْقَاھَا إِلیٰ مَرْیَمَ۔
”عیسیٰ اللہ کا کلمہ تھا کہ جو مریم کی طرف القاء کیا گیا“۔ (نساء۔ ۱۷۱)
زیرِ بحث آیت میں بھی ”کلمہ“ اسی معنی میں ہے یعنی جہانِ ہستی کے موجودات کی طرف اشارہ ہے کہ جن میں سے ہر ایک پروردگار کی گونا گوں صفات کی حکایت کرتا ہے ۔
در اصل اس آیت میں قرآن اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ یہ گمان نہ کرو کہ عالمِ ہستی یہی کچھ ہے جو تم دیکھ رہے ہو یا جانتے ہو یا محسوس کرتے ہو بلکہ یہ کائنات اس قدر وسیع و عظیم ہے کہ اگر تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور اس سے ان موجودات کا احصاء و شمار نہیں ہو پائے گا ۔
اِس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ ”البحر“ یہاں جنس کا مفہوم رکھتا ہے ۔ اسی طرح ”ولو جئنا بمثلہ مددًا“ میں لفظ ”مثل“ بھی جنس کا معنی دیتا ہے ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر سمندروں کی مثل و مانند کا اضافہ بھی کردیا جائے تو بھی جنس کا معنی دیتا ہے ۔ یہ اس بنا پر زیرِ بحث آیت سورہ ٴلقمان کی اس سے ملتی جلتی آیت سے کوئی تضاد نہیں رکھتی ۔ سورہ ٴلقمان کی وہ آیت یہ ہے :
<وَلَوْ اٴَنَّمَا فِی الْاٴَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اٴَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ اٴَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللهِ۔
”روئے زمین کے سب درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر اور ان کے علاوہ سات سمندر اور سیاہی بن جائیں (تاکہ کلماتِ الٰہی کو لکھ سکیں) تو اس کے کلمات ہر گز ختم نہیں ہوں گے“ (لقمان۔ ۲۷)
یعنی یہ قلمیں گھِس جائیں گی او ران سیاہیوں کا آخری قطرہ تک ختم ہو جا ئے گا لیکن جہان ہستی کے اسرار وحقایق ابھی باقی ہوں گے ۔
ایک اہم بات کہ جس کی طرف اس مقام پر توجہ ضروری ہے یہ ہے زیرِبحث آیت ماضی حال اور مستقبل کے لحاظ سے جہان ہستی کی وسعت کی غماز ہو نے کہ ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے لا محدود علم کی بھی ترجمان ہے کیو نکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ تمام چیزوں جو عالم ہستی کی وسعت میں تھیں، یا اس وقت میں اللہ تعالیٰ ان کا علمی احاطہ رکھتا بلکہ اس کا علم چونکہ حضوری علم ہے اس لیے ان موجودات سے جدا نہیں ہوسکتا (غور کیجئے گا) ۔
دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر زمین کے تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور تمام درخت قلمیں بن جائیں تو ہرگز اس پر قادر نہیں کہ جو کچھ الله کے علم میں ہے اسے رقم کرکسیں ۔
لامتنا ہی کی تصویر کشی
اس مقا م پر قرآن مجید ن لامتنا ہی تعداد کا تصور، الله کے علم بے پایان کا مفہوم اورجہانِ ہستی کی وسعت کو ہمارے افکار و اذہان سے قریب کرنے کے لیے بہت ہی فصیح و بلیغ انداز اختیار کیا ہے اور زندہ و جاندار اعداد سے استفادہ کیا ہے ۔


 

۱۔فخر الدین رازی نے ”مداد“کے مفہوم کے بارے میں ایک اور معنی بھی نقل کیا ہے اور وہ ہے ”ایسا تیل جو چراغ میں ڈالتے ہیں اور جو روشنی کا سبب بنتا ہے“غور سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں معانی کی بنیاد ایک ہی ہے ۔