شان نزول
قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا ۱۰۹قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ۱۱۰
آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کے کلمااُ کے لئے سمندر بھی روشنی جائیں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہوجائیں گے چاہے ان کی مدد کے لئے ہم ویسے ہی سمندر اور بھی لے ائیں. آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارا ہی جیسا ایک بشر ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا ایک اکیلا ہے لہذا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ بنائے.
اس آیت کی شانِ نزول کے بارے میں ابنِ عباس سے منقول ہے:
یہودیوں نے جب پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ آیت سنی:
<ما اوتیتم من العلم الا قلیلاً
”تمہیں تو تھوڑا سا علم دیا گیا ہے“۔
تو انہوں نے کہا یہ بات کیونکر صحیح ہوسکتی ہے جبکہ ہمیں تورات دی گئی ہے اور جسے تورات دی گئی ہے اس کے پاس خیر کثیر ہے اس وقت یہ (مندرجہ بالا پہلی) آیت نازل ہوئی (اور بتایا کہ ہمارے پاس جو علم ہے وہ اللہ کے لا متناہی علم کے مقابلے میں ناچیز ہے) ۔
بعض کہتے ہیں کہ یہودیوں نے پیغمبرِ اسلام سے کہا:
خدا نے تجھے حکمت دی ہے ۔ <و من یوت الحکمة فقد اوتی خیراً کثیراً(اور جسے حکمت دی گئی ہے اُسے تو خیرِ کثیر مل گیا) لیکن جب ہم تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں تو تُو مبہم سا جواب دیتا ہے ۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی (اور اس نے نشاندہی کی ہے کہ انسان کے پاس جتنا بھی علم ہو اللہ کے نا پیدا کنار علم کے مقابلے میں ناچیز ہے) ۔(۱)