۴۔ ”لا یبغون عنھا حولاً“کی تفسیر
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ۱۰۳الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ۱۰۴أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ۱۰۵ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا ۱۰۶إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ۱۰۷خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا ۱۰۸
پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں. یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں. یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ہے تو ان کے اعمال برباد ہوگئے ہیں اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے. ان کی جزا ان کے کفر کی بنا پر جہنم ّہے کہ انہوں نے ہمارے رسولوں اور ہماری آیتوں کو مذاق بنا لیا ہے. یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کی منزل کے لئے جنّت الفردوس ہے. وہ ہمیشہ اس جنّت میں رہیں گے اور اس کی تبدیلی کی خواہش بھی نہ کریں گے.
۴۔ ”لا یبغون عنھا حولاً“کی تفسیر:
”حِوَل“ (بروزن ”مِلل“) مصدری معنی رکھتا ہے ۔ اس کا معنی ہے ”تحول“ اور نقل مکانی ۔ جیسا کہ ہم نے آیات کی تفسیر میں کہا ہے کہ ”فردوس“ جنت کا ایسا باغ ہے جس میں سب نعماتِ الٰہی موجود ہیں اسی بناء پر فردوس اس جہان کی بہترین جگہ ہوگی ۔ لہٰذا اس کے ساکنین وہاں سے نقل مکانی کی ہرگز تمنا نہ کریں گے ۔
ہوسکتا ہے سوال کیا جائے کہ پھر تو وہاں کی زنگی یکسا نیت اور جمود کا شکار ہوگی اور یہ ایک بہت بڑا عیب ہے ۔
ہم جواب میں کہیں گے کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ تحول و تکامل کا عمل اسی مقامِ دائمی پر جاری رہے ۔ یعنی تکامل و ارتقاء کے اسباب وہاں موجود ہوں گے اور انسان نے اس جہان میں اعمال انجام دیئے ہیں اور اللہ نے اسے جو اس جہان میں نعمتیں عطا کی ہیں سب ہمیشہ تکامل پذیر رہیں گی ۔
متعلقہ آیات کے ذیل میں انشاء اللہ تکاملِ انسان کے بارے میں ہم تفصیل سے بحث کریں گے نیز بہشت میں تکامل کا یہ عمل جاری رہنے سے متعلق گفتگو کریں گے ۔