Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۵۔ فردوس کن کا مقام ہے؟

										
																									
								

Ayat No : 103-108

: الكهف

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ۱۰۳الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ۱۰۴أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ۱۰۵ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا ۱۰۶إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ۱۰۷خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا ۱۰۸

Translation

پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں. یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں. یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ہے تو ان کے اعمال برباد ہوگئے ہیں اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے. ان کی جزا ان کے کفر کی بنا پر جہنم ّہے کہ انہوں نے ہمارے رسولوں اور ہماری آیتوں کو مذاق بنا لیا ہے. یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کی منزل کے لئے جنّت الفردوس ہے. وہ ہمیشہ اس جنّت میں رہیں گے اور اس کی تبدیلی کی خواہش بھی نہ کریں گے.

Tafseer

									۵۔ فردوس کن کا مقام ہے؟


جیسا کہ کہا گیا ہے فردوس (1) جنت میں بہترین اور افضل ترن مقام ہے ۔ زیرِ بحث آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ فردوس با ایمان اور اعمالِ صالح انجام دینے والے لوگوں کا ٹھکانا ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر سوال پیدا ہوگا کہ کیا جنت کے دوسرے علاقوں میں رہنے والا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ غیر مومن تو جنت میں جاہی نہیں سکتا ۔
اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ زیرِ نظر آیات ہر اس شخص کی طرف اشارہ نہیں کررہیں کہ جو با ایمان ہے اور نیک کام کرتا ہے بلکہ ایمان اور عمل صالح کے لحاظ سے جو افراد بلند درجے پر فائز ہوں گے وہی فردوس میں داخل ہوسکیں گے ۔ ظاہر آیت اگر چہ مطلق ہے لیکن فردوس کے مفہوم کی طرف توجہ کی جائے تو آیت کا مفہوم مقید و محدود ہوجاتاہے ۔

اسی لیے سورہٴ مومنین میں جہاں فردوس کے وارثوں کی صفات بیان کی گئی ہیں وہاں مومنین کی نہایت اعلیٰ صفات کا ذکر ہے اور یہ صفات سب میں نہیں ہوتیں ۔ یہ امر خود اس بات کے لیے قرینہ ہے کہ فردوس میں رہنے والے افراد ایمان اور عمل صالح کے علاوہ ممتاز صفات کے حامل ہوں گے ۔
اسی بناء پر ایک حدیث کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہم پہلے نقل کرچکے ہیں، اس میں ہم نے پڑھا ہے کہ آپ فرماتے ہیں:
جب اللہ سے جنت کا تقاضا کرو تو خصوصیت سے فردوس کا تقاضا کرو کہ جو جنت کی جامع ترین اور اکمل ترین منزلوں میں سے ہے ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ با ایمان افراد کی ہمت ہر چیز کے بارے میں اور ہر حالت میں عالی ہونا چاہیے یہاں تک کہ بہشت کی تمنا میں بھی نچلے مراحل پر قناعت نہیں کرنا چاہیے اگر چہ نچلے مرحلے بھی نعماتِ الٰہی سے معمور ہیں ۔
یہ بات واضح ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس قسم کا تقاضا کرتا ہے تو ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ایسے مقام تک پہنچانے کے لیے تیار بھی کرے، بہترین انسانی صفات اپنائے اور صالح ترین اعمال سرانجام دے ۔
لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کرے ہمیں جنت میں ٹھکانا مل جائے چاہے نچلے درجے میں ہی ہو، وہ سچے مومنین کی اعلیٰ ہمت سے پوری طرح بہرہ ور نہیں ہیں ۔

 

۱۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں یہ لفظ رومی زبان سے لیا گیا ہے اور بعض سمجھتے ہیں کہ یہ حبشہ کی زبان سے عربی میں منتقل ہوا ہے (تفسیر فخر رازی اور تفسیر مجمع البیان) ۔