۳۔ اعمال کا وزن
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ۱۰۳الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ۱۰۴أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ۱۰۵ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا ۱۰۶إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ۱۰۷خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا ۱۰۸
پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں. یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں. یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ہے تو ان کے اعمال برباد ہوگئے ہیں اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے. ان کی جزا ان کے کفر کی بنا پر جہنم ّہے کہ انہوں نے ہمارے رسولوں اور ہماری آیتوں کو مذاق بنا لیا ہے. یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کی منزل کے لئے جنّت الفردوس ہے. وہ ہمیشہ اس جنّت میں رہیں گے اور اس کی تبدیلی کی خواہش بھی نہ کریں گے.
۳۔ اعمال کا وزن:
اس امر کی ضرورت نہیں کہ اعمال کے وزن کے مسئلے کی قیامت میں تجسّمِ اعمال کے حوالے سے تفسیر کی جائے اور یہ کہیں کہ قیامت میں انسانی اعمال وزن والے جسم کی صورت اختیار کر لیں گے کیونکہ” وزن کرنا“ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اس میں ہر قسم کا اندازہ لگانا اور وزن کرنا شامل ہے مثلاً جن افرادکی کوئی حیثیت نہ ہوا نہیں بے وزن یا ہلاک لوگ ہیں حالانکہ مراد ان کی حیثیت کی نفی ہے نہ کہ ان کے وزن کی ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ زیر بحث آیات میں” اخسرین اعمالاً“ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
روز قیامت ان کے لیے میزان و ترازو قائم نہیں کیا جائے گا ۔
جبکہ ایسی آیات بھی ہیں جو کہتی ہیں:
<وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَق
اس روز وزن حق ہے ۔(اعراف۔ ۸)
کیا یہ آیات ایک دوسرے کے منافی ہیں؟ یقیناً نہیں ۔ کیونکہ وزن تو ان کے اعمال کا ہوگا جنہوں نے ایسے اعمال کیے ہیں جو وزن کرنے کے قابل ہیں لیکن وہ شخص کہ جس کا سارا وجود اور جس کے افکار و اعمال ایک مکھی کے پر کے برابر بھی وزن نہیں رکھتے ۔ اس کے لیے وزن کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اسی لیے رسول اکرم صلی علیہ و آلہ وسلم سے مروی ایک مشہور روایت ہے:
انہ لیاتی الرجل العظیم السمین یوم القیامة لا یزن جناح بعوضة
روزِ قیامت کچھ موٹے تازے افراد لائے جائیں گے جن کا وزن عدالت میں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوگا ۔(1)
7کیونکہ اس جہان میں ان کی شخصیت، اعمال اور افکار سب کھوکلے ہوں گے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہاں مختلف قسم کے لوگ ہوں گے:
۱۔ وہ افراد کہ جن کی نیکیاں اتنی وزنی ہوں گی کہ ان کے وزن اور حساب کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ یہ لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔2
۲۔ وہ افراد کہ جن کے اعمال بالکل حبط اور باطل ہوجائیں گے یا پھر جن کے لیے کوئی نیکی ہوگی ہی نہیں کہ جس کے لیے میزان کی ضرورت پڑے ۔ یہ لوگ بھی بغیر حساب کے جہنم میں داخل ہوجائیں گے ۔
۳۔ تیسرا گروہ ان افراد کا ہوگا جن کی کچھ نیکیاں ہوں گی اور کچھ بدیاں ۔ میزان اور ترازو کی ضرورت ان کے لیے ہوگی اور شاید بیشتر لوگ اسی تیسری قسم میں شامل ہوں گے ۔
۱۔ سورہٴ مومنین کی آیت۱۰۶ کی طرف رجوع کریں ۔
2۔ تفسیر مجمع البیان، زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔