۲۔ لقاء اللہ کیا ہے؟
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ۱۰۳الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ۱۰۴أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ۱۰۵ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا ۱۰۶إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ۱۰۷خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا ۱۰۸
پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں. یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں. یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ہے تو ان کے اعمال برباد ہوگئے ہیں اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے. ان کی جزا ان کے کفر کی بنا پر جہنم ّہے کہ انہوں نے ہمارے رسولوں اور ہماری آیتوں کو مذاق بنا لیا ہے. یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کی منزل کے لئے جنّت الفردوس ہے. وہ ہمیشہ اس جنّت میں رہیں گے اور اس کی تبدیلی کی خواہش بھی نہ کریں گے.
۲۔ لقاء اللہ کیا ہے؟
بعض عالم نما بیہودہ افراد نے اس قسم کی آیات سے یہ مطلب نکالا ہے کہ اللہ کو دوسرے جہان میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ان لوگوں نے یہاں لقائے الٰہی سے حسّی ملاقات مراد لی ہے ۔
لیکن واضح ہے کہ حسّی ملاقات کے لیے جسم ضروری ہے اور جسم کے لیے محدود ہونا، محتاج ہونا اور فنا پذیر ہونا ضروری ہے اور ہر عقلمند جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات کا حامل نہیں ہوسکتا ۔
لہٰذا اس میں شک نہیں کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں ”ملاقات“ اور ”روٴیت“کی نسبت اللہ کی طرف دی گئی ہے وہاں ملاقات حسّی مرا دنہیں ہے بلکہ شہودِ باطنی مراد ہے یعنی قیامت میں انسان آثارِ خداوندی کو ہر زمانے بہتر طور پر دیکھ سکے گا، اسے دل کی آنکھ سے دیکھ سکے گا اور وہاں اللہ پر اس کا ایمان شہودی ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ آیاتِ قرآن کے مطابق ہٹ دھرم ترین منکرین خدا قیامت میں اعتراف کرلیں گے کیونکہ انہیں انکار کی کوئی راہ سچائی نہ دے گی ۔(1)
۱۔ عض مفسرین نے اس تعبیر کا یہ مفہوم سمجھتا ہے کہ وہاں انسان نعمتیں اور جزاء و ثواب دیکھے گا اور اسی طرح الله کے عذاب و سزا کا مشاہدہ کرے گا ۔ انہوں نے در حقیقت نعمت و ثواب و جزاء کو مقدار سمجھا ہے ۔
یہ دوتفاسیر اگر چہ ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں تا ہم پہلی ریادہ واضح معلوم ہوتی ہے ۔