Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ ذوالقرنین کون تھا؟

										
																									
								

Ayat No : 92-98

: الكهف

ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا ۹۲حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا ۹۳قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَىٰ أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا ۹۴قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ۹۵آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا سَاوَىٰ بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا ۹۶فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا ۹۷قَالَ هَٰذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي ۖ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ ۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا ۹۸

Translation

اس کے بعد انہوں نے پھر ایک ذریعہ کو استعمال کیا. یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچ گئے تو ان کے قریب ایک قوم کو پایا جو کوئی بات نہیں سمجھتی تھی. ان لوگوں نے کسی طرح کہا کہ اے ذوالقرنین یاجوج وماجوج زمین میں فساد برپا کررہے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ ہم آپ کے لئے اخراجات فراہم کردیں اور آپ ہمارے اور ان کی درمیان ایک رکاوٹ قرار دیدیں. انہوں نے کہا کہ جو طاقت مجھے میرے پروردگار نے دی ہے وہ تمہارے وسائل سے بہتر ہے اب تم لوگ قوت سے میری امداد کرو کہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک روک بنادوں. چند لوہے کی سلیں لے آؤ- یہاں تک کہ جب دونوں پہاڑوں کے برابر ڈھیر ہوگیا تو کہا کہ آگ پھونکو یہاں تک کہ جب اسے بالکل آگ بنادیا تو کہا آؤ اب اس پر تانبا پگھلا کر ڈال دیں. جس کے بعد نہ وہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ اس میں نقب لگا سکیں. ذوالقرنین نے کہا کہ یہ پروردگار کی ایک رحمت ہے اس کے بعد جب وعدہ الٰہی آجائے گا تو اس کو ریزہ ریزہ کردے گا کہ وعدہ رب بہرحال برحق ہے.

Tafseer

									۲۔ ذوالقرنین کون تھا؟
جس ذوالقرنین کا قرآن مجید میں ذکر ہے، تاریخی طور پر وہ کون شخص ہے، تاریخ کی مشہور شخصیتوں میں سے یہ داستان کس پر منطق ہوتی ہے، اس سلسلے میں مفسرین کے ما بین اختلاف ہے ۔ اس سلسلے میں جو بہت سے نظریات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے یہ تین زیادہ اہم ہیں:
پہلا:بعض کا خیال ہے کہ اسکندر مقدونی ہی ذوالقرنین ہے لہٰذا وہ اسے سکندر ذوالقرنین کے نام سے پکارتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اس نے اپنے باپ کی موت کے بعد روم، مغرب اور مصر پر تسلط حاصل کیا ۔ اس نے اسکندر یہ شہر بنایا ۔ پھر شام اور بیت المقدس پر اقتدار قائم کیا ۔ وہاں سے ارمنستان گیا ۔ عراق و ایران کو فتح کیا ۔پھر ہندوستان اور چین کا قصد کیا وہاں سے خراسان پلٹ آیا، اس نے بہت سے نئے شہروں کی بنیاد رکھی، پھر وہ عراق آگیا اس کے بعد وہ شہر زور میں بیمار پڑا اور مرگیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی عمر چھتیس سال سے زیادہ نہ تھی ۔ اس کا جسدِ خاکی اسکندر یہ لے جا کر دفن کردیا گیا ۔ (1)
دوسرا:مورخین میں سے بعض کا نظریہ ہے ذوالقرنین یمن کا ایک بادشاہ تھا ۔ (یمن کے بادشاہ کو ”تبع“ کے نام سے پکارا جاتا تھا) ۔ اصمعی نے اپنی تاریخ ”عرب قبل از اسلام“ میں،ابن ہشام نے اپنی مشہور تاریخ”سیرة“میں اور ابوریحان بیرونی نے”الآثار الباقیہ“ میں یہی نظریہ پیش کیا ہے ۔
یہاں تک کہ یمن کی ایک قوم” حمیری“ کے شعراء اور زمانہٴ جاہلبیت کے بعض شعراء کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے انھوں نے ذوالقرنین کے اپنے میں سے ہونے پر فخر کیا ہے ۔(2)
اس نظریہ کی بناء پر ذوالقرنین نے جو دیوار بنائی وہ دیوار ماٴرب ہے ۔
تیسرا:یہ جدید ترین نظریہ ہے جو ہندوستان کے مشہور عالم ابوالکلام آزاد نے پیش کیا ہے ۔ ابوالکلام آزاد کسی دَور میں ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے ۔ (3) اس نظریے کے مطابق ذوالقرنین، کورش کبیر بادشاہ ہخامنشی ہے ۔
 

پہلے اور دوسرے نظریے کے لیے کوئی خاص تاریخی مدرک نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن نے ذوالقرنین کی جو صفات بیان کی ہیں ان کا حامل اسکندر مقدونی ہے نہ کوئی بادشاہ یمن۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسکندر مقدونی نے کوئی معروف دیوار بھی نہیں بنائی ۔
رہی وہ یمن کی دیوار ماٴرب، تو اس میں ان صفات میں سے ایک بھی نہیں جو قرآن کی ذکر کردہ دیوار میں ہیں ۔ کیونکہ قرآن کے مطابق دیوارِ ذوالقرنین لو ہے اور تانبے سے بنائی گئی ہے اور یہ دیوار وحشی اقوام کو روکنے کے لیے بنائی گئی تھی جبکہ دیوارِمارب عام مصالحے سے بنائی گئی ہے اور اس کی تعمیر کا مقصدپانی کا ذخیرہ کرنا اور سیلابوں سے بچانا تھا ۔ اس کی وضاحت خود قرآن نے سورہٴ سبا میں کی ہے ۔
لہٰذا ہم اپنی بحث کو زیادہ تر تیسرے نظریے پرمرتکز کرتے ہیں ۔ یہاں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ چند امور کی طرف خوب توجہ د ی جائے :
(ا) ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ” ذولقرنین“ کا معنی ہے” دوسینگوں والا“ ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انھیں اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا ۔
بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ نام اس لیے پڑا کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب تک پہنچے کہ جسے عرب” قرنی الشمس“ ( سورج کے دوسینگ) سے تعبیر کرتے ہیں ۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ نام اس لیے ہوا کہ انھوں نے دو قرن زندگی گزاری یا حکومت کی ۔
پھر یہ کہ قرن کی مقدار کتنی ہے، اس میں بھی مختلف نظریات ہیں ۔
بعض کہتے ہیں کہ ان کے سر کے دونوں طرف ایک خاص قسم کا ابھار تھا اس وجہ سے ذوالقرنین مشہور ہوگئے ۔
بعض کا نظریے یہ ہے کہ ان کا خاص تاج دوشاخوں والا تھا ۔
اس کے علاوہ بھی نظریات ہیں، جن کا ذکر بات کو طویل کرے گا ۔ بہر حال ہم دیکھیں گے کہ ذوالقرنین کی شخصیت کے بارے میں تیسرا نظریہ پیش کرنے والے یعنی ابوالکلام آزادنے اپنے نظریے کے اثبات کے لیے اس لقب”ذوالقرنین“ سے بہت استفادہ کیا ہے ۔
(ب) قرآن مجید سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ممتاز صفات کے حامل تھے ۔ اللهتعالیٰ نے کامیابی کے اسباب ان کے اختیار میں دیئے تھے ۔ انھوں نے تین اہم لشکر کشیاں کیں ۔ پہلے مغرب کی طرف، پھر مشرق کی طرف اور آخر میں ایک ایسے علاقے کی طرف کہ جہاں ایک کہستانی درّہ موجود تھا ۔ ان مسافرت میں وہ مختلف اقوام سے ملے ۔ ان کی تفصیل آیات کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔
وہ ایک مردِ مومن موحّد اور مہربان شخص تھے ۔ وہ عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے ۔ اسی بناء پر الله کا لطف خاص ان کے شاملِ حامل تھا ۔ وہ نیکوں کے دوست اور ظالموں کے دشمن تھے ۔ انھیں دنیا کے مال و ولت سے کوئی لگاوٴنہ تھا ۔ وہ الله پر بھی ایمان رکھتے تھے اور روزِ جزاء پر بھی ۔ انھوں نے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی، یہ دیوار انھوں نے اینٹ اور پتھر کی بجائے لو ہے اور تا بنے سے بنائی ( اور اگر دوسرے مثالحے بھی استعمال ہوئے ہوں تو ان کی بنیادی حیثیت نہ تھی) ۔ اس دیوار بنانے سے ان کا مقصد مستضعف اور ستم رسیدہ لوگوں کی یاجوج وماجوج کے ظلم وستم کے مقابلے میں مدد کرنا تھا ۔
وہ ایسے شخص تھے کہ نزول قرآن سے قبل ان کا نام لوگوں میں مشہور تھا ۔لہٰذا قریش اور یہودیوں نے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا تھا ، جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
<یسئلونک عن القرنین
ََََ”تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں“۔
البتہ قرآن سے کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جو صراحت سے ان کے نبی ہونے پر دلادت کرے اگرچہ ایسی تعبیرات قرآن میں موجود ہیں کہ جو اس مطلب اشارہ کرتی ہیں، جیسا کہ آیات کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی ایسی روایات منقول ہیں جن میں ہے کہ:
وہ نبی نہ تھے بلکہ الله کے ایک صالح بندے تھے ۔ (۱)


(ج) یہ نظریہ کہ ذولقرنین۔ کورش کبیر۔ کو کہتے ہیں، اس کی دوبنیادیں ہیں:
 

پہلی: یہ کہ اس کے بارے میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرنے والے یہودی تھے یا یہودیوں کی تحریک پر قریش تھے ۔ جیسا کہ ان آیات کی شان نزول کے بارے میں منقول روایات سے ظاہر ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس سلسلے میں کتبِ یہود کو دیکھا جانا چاہیے ۔
یہودیوں کی مشہور کتابوں میں سے کتاب دانیال کی آٹھویں فصل میں ہے:
”بل شصّر“ کی سلطنت کے سال مجھ دانیال کو خواب دکھایا گیا ۔ جو خواب مجھے دکھا یا گیا اس کے بعد اور خواب میں، مَیں نے دیکھا کہ میں ملک ”عیلام“ کے” قصر شوشان“ میں ہوں ۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں” دریائے ولادی“ کے پاس ہوں ۔ میں نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا کہ ایک مینڈھا دریا کے کنارے کھڑا ہو گیا ہے ۔ اس کے دوسینگ تھے اور یہ بلند سینگ تھے ۔ اور اس مینڈھے کو میں ن مغرب، مشرق اور جنوب کی سمت سینگ مارتے ہوئے دیکھا ۔ کوئی جانور اس کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا تھا اور کوئی اس کے ہاتھ سے بچانے والانہ تھا ۔ وہ اپنی رائے پر ہی عمل کرتا تھا اور وہ بڑا ہوتا جاتا تھا 
اس کے بعد اسی کتاب میں دانیال کے بارے میں ہے:
جبریل اس پر ظاہر ہوا اور اس کے خواب کی یوں تعبیر کی: 
دوشاخوں والا مینڈھا جو تو نے دیکھا ہے وہ مدائن اور فارس(یا ماد اور فارس) کے بادشاہ ہیں ۔
یہویوں نے دانیال کے خواب کو بشارت قرار دیا ۔ وہ سمجھے کہ ماد و فارس کے کسی بادشاہ کے قیام اور بابل کے حکمرانوں پر ان کی کامیابی سے یہویوں کی غلامی اور قید کا دور ختم ہوگا اور وہ اہلِ بابل کے چنگل سے آزاد ہوں گے ۔
زیادہ دیر نہ گزری کہ” کورش“ نے ایران کی حکومت پر کنٹرول حاصل کرلیا ۔ اس نے ماد اور فارس کو ایک ملک کر کے دونوں کو ایک عظیم سلطنت بنادیا ۔ جیسے دانیال کے خواب میں بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے سینگ مغرب، مشرق اور جنوب کی طرف مارے گا، کورش نے تینوں سمتوں میں عظیم فتوحات حاصل کیں ۔
اس نے یہویوں کو آزاد کیا اور فلسطین جانے کی اجازت دی ۔
یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ تورات کی کتاب اشعیا، فصل ۴۴، شمارہ ۲۸ میں ہے:
اس وقت خصوصیات سے کورش کے بارے میں فرماتا ہے کہ میرا چرواہا وہی ہے، میری مشیت کو اس نے پورا کیا ہے ۔ اور شلیم سے کہے گا کہ تو تعمیر ہوگا ۔

کتاب دانیال، فصل ششم، پہلے سے چو تھے جملے تک۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ تورات کی بعض تعبیرات میں” کورش“ کے بارے میں ہے کہ:
عقاب مشرق اور مردِ تدبیر کہ جو بڑی دور سے بلایا جائے گا ۔ (2)
دوسری:بنیاد یہ ہے کہ انیسویں عیسوی صدی میں استخر کے قریب دریائے مرغاب کے کنارے کورش کا مجسمہ دریافت ہوا ہے ۔ یہ ایک انسان کے قدر و قامت کے برابر ہے ۔ اس میں کورش کے عقاب کمی طرح کے دو پر بنائے گئے ہیں اور اس کے سر پر ایک تاج ہے ۔ اس میں مینڈھے کے سینگوں کی طرح کے دو سینگ نظر آتے ہیں ۔
یہ مجسمہ بہت قیمتی ہے اور قدیم فن سنگ سازی کا نمونہ ہے ۔ اس نے ماہرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی ہے ۔ جر منی کے ماہر ین کی ایک حماعت نے صرف اسے دیکھنے کے لیے ایران کا سفر کیا ۔
تورات کے مندرجات کو جب اس مجسمے کی تفصیلات کے ساتھ ملاکر دیکھا تو ابوالکلام آزاد کو مزید یقین ہوا کہ کورش کو ذوالقرنین( دو سینگوں والا) کہنے کی وجہ کیا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ کورش کے مجسمے میں عقاب کے دو پر کیوں لگائے گئے ہیں ۔ اس سے علماء کے ایک گروہ کے لیے ذوالقرنین کی تاریخی شخصیت پوری طرح واضح ہوگئی ۔
ایک چیز کہ جو اس نظریے کی تائید کرتی ہے وہ کورش کے تاریخ میں لکھے گئے اخلاقی اوصاف ہیں ۔
یونانی موٴرخ ہر و دوت لکھتا ہے:
کورش نے حکم جاری کیا کہ اس کے سپاہی سوائے جنگ کرنے والوں کے کسی کے سامنے تلوار نہ نکالیں اور دشمن کا جو سپاہی اپنا نیزہ خم کردے اسے قتل نہ کریں ۔ کورش کے لشکر نے اس کے حکم کی اطاعت کی ۔ اس طرح سے کہ ملت کے عام لوگوں کو مصائبِ جنگ کا احساس تک نہ ہوا ۔
ہر و دوت اس کے بارے میں مزید لکھتا ہے:
کورش کریم، سخی، بہت نرم دل اور مہربان بادشاہ تھا ۔ اسے دوسرے بادشاہوں کی طرح مال جمع کرنے کی حرص نہ تھی بلکہ اسے یہ لالچ تھاکہ وہ زیادہ سے زیادہ کرم و عطا کرے ۔ وہ ستم رسیددہ لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کرتا تھا او ر جس چیز سے زیادہ خیر اور بھلائی ہوتی اسے پسند کرتا تھا ۔
ایک اور موٴرخ ذی نو فن لکھتا ہے:
کورش عاقل اور مہربان بادشاہ تھا ۔ اس میں بادشاہ ہوں کی عظمت، حکماء کے فضائل کے ساتھ ساتھ تھی ۔ اس کی ہمت بلند تھی اور اس کا جود و کرم زیادہ تھا ۔ اس کا شعار انسانیت کی خدمت تھا اور عدالت اس کی عادت تھا ۔ وتکبر کی بجائے انکساری کا مرقع تھا ۔

یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ کورش کی اس قدر تعریف و توصیف کرنے والے موٴرخین غیر ہیں، کورش کی قوم اور وطن سے ان کا تعلق نہیں ہے بلکہ اہل یونان کے لوگ کورش کی طرف دوستی اور محبت کی نظر سے نہ دیکھتے تھے کیونکہ کورش نے لید یا کو فتح کر کے اہل یونان کو بہت بڑی شکست دی تھی ۔
اس نظریے کے حامی کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ذوالقرنین کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں وہ کورش کے اوصاف سے مطابقت رکھتے ہیں ۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر، کورش نے مشرق، مغرب اور شمال کی طرف سفر بھی کیے ہیں ۔ ان سفروں کا حال اس کی تاریخ میں تفصیلی طور پر مذکورہ ہے ۔ یہ سفر قرآن میں ذکر کیے گئے ذوالقرنین کے سفروں سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ کورش نے پہلی لشکر کشی لید یا پر کی ۔ یہ ایشیائے کوچک کا شمالی حصہ ہے ۔ یہ ملک کورش کے مرکزِ حکومت سے مغرب کی طرف تھا ۔
ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کا نقشہ سامنے رکھیں تو ہم دیکھیںگے کہ ساحل کے زیادہ تر حصے چھوٹی چھوٹی خلیجوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ خصوصاً ازمیر کے قریب کہ جہاں خلیج ایک چشمے کی صورت دھار لیتی ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ ذوالقرنین نے اپنے مغرب کے سفر میں محسوس کیا کہ جیسے سورج کیچڑ آلود چشمے میں ڈوب رہا ہے ۔ یہ وہی منظر ہے جو کورش نے غروب آفتاب کے وقت ساحلی خلیجوں میں دیکھا تھا ۔
کورش کی دوسری لشکر کشی مشرق کی طرف تھی ۔ جیسا کہ ہرودوت نے کہا ہے کہ کورش کا یہ مشرقی حملہ لید یا کی قتح کے بع ہوا خصوصاً بعض بیابانی وحشی قبائل کی سرکشی نے کورش کو اس پر اکسایا ۔
قرآن کے الفاظ میں:
<حَتَّی إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَطْلُعُ عَلیٰ قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَھُمْ مِنْ دُونِھَا سِتْرًا
پھر وہ سورج کے مرکز طلوع جا پہنچا ۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایسے لوگوں پر طلوع کر رہا ہے کہ جن کے پاس سورج کی کرنوں سے بچنے کے لئے کوئی سایہ نہ تھا ۔
یہ الفاظ کورش کے سفرِ مشرق کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔ جہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع کررہا ہے کہ جن کے پاس اس کی تپش سے بچنے کیلئے کوئی سایہ نہ تھا ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ قوم صحرا نور تھی اور بیابانوں میں رہتی تھی ۔
کورش نے تیسری چڑھائی شمالی کی طرف قفقاز کے پہاڑوں کی جانب کی ۔ یہاں تک کہ وہ پہاڑوں کے درمیان ایک درّے میں پہنچا ۔ یہاں کے رہنے والوں نے وحشی اقوام کے حملوں اور غاتگری کو روکنے کی درخواست کی ۔ اس پر کورش نے اس تنگ درّے میں ایک مضبوط دیوار تعمیر کردی ۔
اس درّے کو آج کل درّہ داریال کہتے ہیں ۔ موجود نقشوں میں یہ” ولادی کیوکز“ اور” تفلیس“ کے درمیان دکھایا جاتا ہے وہاں اب تک ایک آہنی دیوار موجود ہے ۔ یہ وہی دیوار ہے جو کورش نے تعمیر کی تھی ۔
قرآن نے ذوالقرنین کی دیوار کے جو اوصاف بتائے ہیں وہ پوری طرح اس دیوار پر منطبق ہوتے ہیں ۔
تیسرے نظریے کی تقویت کے لیے ہم نے خلاصے کے طور پر یہ کچھ بیان کیا ہے ۔ 
یہ ٹھیک ہے کہ اس نظریے میں بھی ابہام کے ابھی بہت سے پہلو موجود ہیں لیکن عملاً ذوالقرنین کی تاریخ کے بارے میں ابھی تک جتنے نظریے پیش کیے گئے ہیں اسے ان میں سے بہترین کہا جاسکتا ہے ۔

۱۔ تفسیر فخر رازی، زیر بحث آیات کے ذیل میں اور کامل، ابن اثیر ، ج ۱، ص ۲۸۷۔ بعض کہتے ہیں کہ سب سے پہلے بوعلی سینا نے اپنی کتاب الشفاء میں اس نظریے کا اظہار کیا ۔
2۔ المیزان، ج ۱۳ ص ۴۱۴ -
3۔ فارسی میں اس کتاب کے ترجمہ کا نام”ذوالقرنین یا کورش کبیر“ رکھا گیا ہے ۔ بہت سے معاصر مفسرین اور موٴرخین نے اپنی کتب میں اس نظریے کی موافقت کی ہے اور اس پر اپنے خیالات کا تفصیل سے اظہار کیا ہے ۔