Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ اس داستان کے تاریخی اور تربیتی نکات

										
																									
								

Ayat No : 92-98

: الكهف

ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا ۹۲حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا ۹۳قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَىٰ أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا ۹۴قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ۹۵آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا سَاوَىٰ بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا ۹۶فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا ۹۷قَالَ هَٰذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي ۖ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ ۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا ۹۸

Translation

اس کے بعد انہوں نے پھر ایک ذریعہ کو استعمال کیا. یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچ گئے تو ان کے قریب ایک قوم کو پایا جو کوئی بات نہیں سمجھتی تھی. ان لوگوں نے کسی طرح کہا کہ اے ذوالقرنین یاجوج وماجوج زمین میں فساد برپا کررہے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ ہم آپ کے لئے اخراجات فراہم کردیں اور آپ ہمارے اور ان کی درمیان ایک رکاوٹ قرار دیدیں. انہوں نے کہا کہ جو طاقت مجھے میرے پروردگار نے دی ہے وہ تمہارے وسائل سے بہتر ہے اب تم لوگ قوت سے میری امداد کرو کہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک روک بنادوں. چند لوہے کی سلیں لے آؤ- یہاں تک کہ جب دونوں پہاڑوں کے برابر ڈھیر ہوگیا تو کہا کہ آگ پھونکو یہاں تک کہ جب اسے بالکل آگ بنادیا تو کہا آؤ اب اس پر تانبا پگھلا کر ڈال دیں. جس کے بعد نہ وہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ اس میں نقب لگا سکیں. ذوالقرنین نے کہا کہ یہ پروردگار کی ایک رحمت ہے اس کے بعد جب وعدہ الٰہی آجائے گا تو اس کو ریزہ ریزہ کردے گا کہ وعدہ رب بہرحال برحق ہے.

Tafseer

									۱۔ اس داستان کے تاریخی اور تربیتی نکات:
ذوالقرنین کون تھے، مشرق و مغرب کی طرف انھوں نے کس طرح سفر کیا اور ان کی بنائی ہوئی دیوار کہاں ہے؟ اس سلسلے میں ہم انشاء الله بعد میں بحث کریں گے ۔ قطع نظر اس کی تاریخ مطابقت کے، خود داستان بہت سے تربیتی اور تعمیری نکات کی حامل ہے ۔ سب سے زیادہ ان نکات پر غور کیا جانا چاہیے اور یہی د رحقیقت قرآن کا اصل مقصد ہے ۔
۱۔ اسباب کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں :
پہلا درس کہ جو ہمیں یہ داستا ن سکھاتی ہے یہ ہے کہ اسباب و وسائل سے کام لیے بغیر عالم میں کچھ نہیں ہوسکتا لہٰذا الله تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کا کام کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے اسباب و وسائل عطا کیے ۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
و اٰتیناہ من کل شیءٍ سبباً
ہم نے اسے ہر طرح کے اسباب عطا کیے ۔
نیز فرمایا:
فاَتبع سببا
اُس نے بھی ان اسباب سے استفادہ کیا ۔
لہٰذا جو لوگ تو قع رکھیں کہ درکار اسباب و وسائل مہیا کیے بغیر کامیابی تک پہنچ جائیں وہ کہیں نہیں پہنچ سکتے، چاہے وہ ذوالقرنین ہی کیوں نہ ہوں ۔
۲۔ گاہی بڑے شخصیت بھی غروب ہوجاتی ہے:
سورج کا کیچڑ آلود چشمے میں غروب ہوجانا اگر چہ فریبِ نظر کا پہلو رکھتا ہے لیکن اس کے باوجودیوں لگتا ہے جیسے ہوسکتا ہے سورج اتنا بڑا ہونے کے باد وجود کیچڑ بھرے چشمے میں چھپ سکتا ہے جیسے ایک با عظمت انسان اور ایک بلند مقام شخصیت بعض اوقات کسی ایک بڑی لغزش کی وجہ سے اپنے اپنے مقام سے گرجاتی ہے اور اس کی شخصیت نگاہوں سے غروب ہوجاتی ہے ۔
۳۔ تحسین اور سزادونوں کی ضرورت ہے:
کوئی حکومت اپنے اچھے لوگوں کی تحسین و تشویق کے بغیر اور خطا کاروں کو سزا دیئے اور باز پرس کیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی ۔یہی وہ اصول ہے جس سے حضرت ذوالقرنین نے استفاہ کیا اور کہا:
جنھوںنے زیادتی اور ظلم کیا ہے انھیں ہم سزا دیں گے اور جو ایمان لائے ہیں اور اچھے عمل کرتے ہیں انھیں ہم اچھی جزا دیں گے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے نام ایک فرمان جاری کیا ۔ یہ فرمان نظامِ مملکت کا ایک جامع دستور العمل ہے ۔ اس مشہور حکم میں آپ(ع) فرماتے ہیں:
ولا یکونن المحسن والمسیء عندک بمنزلة سواء فان فی ذٰلک ترھیداً لا ھل الاحسان فی الاحسان، و تدریبا لا ھل الاسائة علی الاسائة۔(2) 
تیری نگاہ میں نیک اور بد کبھی ایک نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ اس طرح تو نیک لوگ اپنے کام سے بد دل ہوجائیں گے اور بُرے بے پرواہ۔
۴۔ اتنا بوجھ ڈالنا جو قابل برداشت ہو:
عدل الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ کسی پر اتنا بوجھ اور ذمہ داری ڈالی جائے کہ جو اس کے لیے تکلیف دہ نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ذوالقرنین نے تصریح کی،میں ظالموںکو سزا دوں گااور نیک لوگوں کو اچھی جزادوں گا اور پھر فرمایا:میں ان کے سامنے آسان پروگرام رکھوں گا ۔یعنی ان کے ذمہ آسان کام لگاوٴں گا تا کہ وہ شوق اور رغبت سے یہ کام سرانجام دے سکیں ۔
۵۔ مختلف علاقے، مختلف حالات اور مختلف تقاضے:
ایک وسیع اور ہمہ گیر مملکت مختلف علاقوں میں لوگوں کے مختلف حالات سے بے اعتناء نہیں رہ سکتی ۔ ذوالقرنین کہ جو ایک حکومتِ الٰہی کے سر براہ تھے ۔ ان کی مملکت کے مختلف خطوں مختلف قومیں بستی تھیں ۔ ہرقوم کا اپنا رہن سہن اور تمدن تھا ۔ ذوالقرنین ان میںسے ہر ایک کے ساتھ اس کے حسب حال سلوک کرتے اور ان سب کو گویا اپنے پروں کے نیچے رکھتے ۔
۶۔ ہر قوم کے مسائل حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے:
ایک قوم کہ جو قرآن کے بقول:
<لَایَکَادُونَ یَفْقَھُونَ قَوْلً
یعنی ۔ بات تک نہ سمجھتی تھی ۔ حضرت ذوالقرنین نے اسے بھی اپنی نگاہ کرم سے دور نہیں رکھااور جیسے بھی ممکن ہوٴا ن کا درد دل سنا اور ان کی احتیاج کو پورا کیا ۔آپ نے ان کے اور ان کے دشمن کے د رمیان مضبوط دیوار بنادی، ظاہراً نظر نہیں آتا کہ حکوت کے لیے ایسی قوم کوئی فائدہ مند تھی اس کے باوجود حضرت ذوالقرنین نے ان کے ساتھ یہ حسن سلوک روارکھا اور ان کے مسائل حل کیے ۔ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
اسماع الاصم من غیر تصخر صدقة ھنیئة
اتنی بلند آواز سے بات کرنا کہ بہرہ شخص بھی سن لے، اچھے صدقے کی مانند ہے ۔بشر طیکہ یہ بلند آواز غصے کے طور پر نہ ہو ۔(3)
۷۔ امن صحیح معاشرے کے لئے بنیادی شرط ہے:
ایک صحیح معاشرے کی زندگی کے لیے امن اولین اور اہم ترین شرط ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قیام امن اور مفسدین کو روکنے کے لیے حضرت ذوالقرنین نے بہت باعثِ زحمت کام اپنے ذمے لیا نہایت مضبوط دیوار کھڑی کردی ۔ ایسی دیوار جو تاریخ میں ضرب المثل ہوگئی ۔ جیسے کہتے ہیں ”دیوار سکندر کی طرح“ (اگر چہ ذوالقرنین سکندر نہ تھے) ۔
اسی بناء پر حضرت ابراہیم(ع) نے تعمیر کعبہ کے وقت اس سرزمین کے لئے جو چیز سب سے پہلے الله سے مانگی وہ نعمت امن و امان ہی تھی ۔ آپ(ع) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا:
<رَبِّ اجعَل ہٰذَا البَلَدَ اٰمِناً
بار الٰہا! اس شہر کو امن کا گہوارہ بنادے ۔ (ابراہیم۔ ۳۵)
اسی لیے فقہ اسلام میں ان لوگوں کے لیے سخت ترین سزا مقرر کی گئی ہے جو معاشرے کے امن و امان کو خطرے میں ڈال دیں (سورہٴ مائدہ۔آیہ ۳۳ کی طرف رجوع کریں) ۔
۸۔ صاحب مسئلہ کو خود بھی شریک کار ہونا چاہیے:
اس تاریخی واقعے سے ایک اور سبق یہ لیا جاسکتا ہے کہ جن کا کوئی مسئلہ ہے اور جو کسی درد میں مبتلا ہیں انھیں بھی اپنے مسئلے کے حل اور درد کے علاج میں شریک ہونا چاہیے کیونکہ:
آہِ صاحبِ درد را باشد اثر
جو خود درد میں مبتلا ہو اس کی آہ اثر رکھتی ہے ۔
اسی لیے جنھوں نے وحشی قوموں کے حملے کی شکایت کی تھی سب سے پہلے حضرت ذوالقرنین نے انھیں حکم دیا کہ وہ لو ہے کی سلیں لے آئیں ۔ اس کے بعد آپ نے انھیں لو ہے کی دیوار کے گردآگ روشن کرنے کا حکم دیا ۔ پھر پگھلا ہوٴا تا نبا لا نے کے لیے کہا تا کہ اسے لو ہے پر لیپ دیا جائے ۔
اصولی طور پر جنھیں کوئی مسئلہ در پیش ہو، جب کام ان کی شراکت سے انجام پاتا ہے تو ان کی اصلاحتیں بھی ابھر تی ہیں، کام کی کوئی قدر و قیمت بھی ہوتی ہے اور پھر وہ اس کی حفاظت بھی کرتی ہیں کیونکہ اس میں ان کی زحمتیں بھی شامل ہوتی ہیں ۔
ضمنی طور پر اس سے یہ بھی اچھی طرح واضح ہوتاہے کہ ایک پسماندہ قوم کو بھی جب کوئی صحیح سرپرست اور منصوبہ بندی میسر آجائے تو وہ بھی بڑے اہم اور محیر العقول کام کرسکتی ہے ۔
۹۔ خدائی رہبر کی مادیات سے بے اعتنائی:
ایک سبق اس داستان سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ ایک خدائی رہبر کو مال دنیا اورمادیات سے بے پرواہ اور بے اعتناء ہونا چاہیے اور جو کچھ الله نے اسے عطا کیا ہے اسی پر قناعت کرنا چاہیے ۔ بادشاہ ہر طرف سے اور ہر کسی سے عجیب عجیب ہٹکنڈے استعمال کر کے مال جمع کرنے کی لالچ کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ذوالقرنین کو جب مال کی پیشکش کی گئی تو آپ نے یہ کہہ کر قبول نہ کی کہ:
ما مکنی فیہ ربی خیر
جو کچھ میرے رب نے مجھے دیا ہے وہ بہتر ہے ۔
قرآن مجید میں واقعاتِ انبیاء میں ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ ان کی یہ بات بنیادی ہوتی تھی کہ ہماری دعوت تم سے کسی اجر وصلہ کے لیے نہیں اور ہم تم سے اجر کی خواہش نہیں کرتے ۔ یہ بات قرآن مجید میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور دیگر انبیاء کے بارے میں گیارہ مرتبہ دکھائی دیتی ہے ۔ کبھی اس جملے کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ:
ہماری جزا تو خدا کے ذمہ ہے ۔
اور کبھی فرمایا گیا ہے:
<قُلْ لَااٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ
میں تم سے اپنے اقرباء سے محبت وموٴدت کے علاوہ کسی چیز کا تقاضانھیں کرتا ۔
اہل بیت(ع) سے موٴدت و محبت کا یہ تقاضا بھی دراصل آئندہ رہبری کی بنیاد کے طور پر ہے ۔
۱۰۔ کام ہر لحاظ سے ٹھوس اور مضبوط ہونا چاہیے:
کام کو ہر لحاظ سے ٹھوس اور پائدار کرنا، اس داستان کا ایک اور سبق ہے ۔ ذوالقرنین نے دیوار تعمیر کرنے کے لیے لو ہے کی بڑی بڑی سلیں استعمال کیں اور انھیں آپس میں ملانے اور جوڑنے کے لیے آگ میں پگھلایا ۔ نیز دیوار کو ہَوا، رطوبت، بارش وغیرہ کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے پر تانبے کالیپ کردیا تا کہ لو ہا بوسیدہ اور زنگ زدہ نہ ہو ۔
۱۱۔تکبر۔ انسان کو زیبا نہیں:
انسان کتنا بھی طاقتور اور صاحب قدرت ہو اور بڑے بڑے کام کر گزرے پھر بھی اسے ہرگز اپنے اوپر غرور اور ناز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ وہ درس ہے حضرت ذوالقرنین نے سب کو دیا ہے ۔ وہ ہر مقام پر قدرت پر بھروسہ کرتے تھے ۔ جب دیوار مکمل ہوگئی تو انھوں نے کہا:
ھٰذا رحمة من ربی
یہ میرے رب کی رحمت ہے ۔
جب انھیں مالی کمک کی پیش کش ہوئی تو کہا:
ما مکنی فیہ ربی خیر
جو کچھ الله نے مجھے بخشا ہے وہ اس سے بہتر ہے ۔اور جب آپ نے اس مضبوط دیوار کے درہم برہم ہوجانے کی بات کی تو بھی پروردگار کے وعدہٴ حق کا سہارا لیا ۔
۱۲۔ اس جہان کی ہر چیز فنا پذیر ہے:
آخرکار تمام چیزیں زائل ہوجائیں گی ۔ اس جہان کی مضبوط ترین عمارتیں بھی آخر کار تباہ ہوجائیں گی،اگر چہ وہ لو ہے اور فولاد کی بنی ہوں ۔ یہ اس داستان کا آخری درس ہے ۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے درس ہے جو عملی طور پر دنیا کو جاودانی سمجھتے ہیں اور مال جمع کرنے، منصب و مقام حاصل کرنے کے لیے کسی قانون اور قاعدے کی پرواہ نہیں کرتے اور دنیا کے لیے ایسی حریصانہ کوشش کرتے ہیں کہ گویا موت اور فنا ہے ہی نہیں ۔ جبکہ دیوارِ ذوالقرنین تو معمولی چیز ہے، سورج اتنا بڑا ہونے کے باوجود خاموش اور فنا ہوجائے گا ۔ پہاڑ اپنی اتنی مضبوطی کے با وجود دھنی ہوئی روئی کی مانند اڑجائیں گے ۔ان سب چیزوں میں انسان تو بہت ہی کمزور سی مخلوق ہے ۔ کیا اس حقیقت کے بارے میں غور و خوض انسان کو خود غرضیوں اور پرستیوں سے روکنے کے لیے کافی نہیں ہے ۔