۷۔ اس داستان سے حاصل ہونے والے درس
أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ۷۹وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۸۰فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ۸۱وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ۸۲
یہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں باربرداری کا کام کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادوں کہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو غصب کرلیا کرتا تھا. اور یہ بچّہ .... اس کے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا کہ یہ بڑا ہوکر اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر ان پر سختیاں کرے گا. تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی. اور یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور ان کا باپ ایک نیک بندہ تھا تو آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں طاقت و توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں- یہ سب آپ کے پروردگار کی رحمت ہے اور میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا ہے اور یہ ان باتوں کی تاویل ہے جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ہیں.
۷۔ اس داستان سے حاصل ہونے والے درس:
اس داستان سے ہمیں بہت سے سبق حاصل ہوتے ہیں مثلاً:
(ا) عالم رہبر کی تلاش اور اس کے علم سے استفادہ کرنا اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ حضرت موسیٰ(ع) جیسے اولوالعزم پیغمبر نے اس کی تلاش میں انتا سفر کیا اور یہ سب انسانوں کے لیے ایک نمونہ ہے، وہ جس مرتبہ کے بھی ہوں اور جس سن و سال کے اور انھیں جیسے بھی حالات در پیش ہوں ۔
(ب) جو ہر علم الٰہی کا سرچشمہ عبودیت اور الله کی بندگی ہے ۔ جیسا کہ زیر نظر آیات میں ہم نے پڑھا ہے:
عبداً من عبادنا اٰتیناہ رحة من عندنا و علمناہ من لنا علماً
وہ ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ تھا اسے ہم نے اپنے خاص علم سے نوازا تھا ۔
(ج)علم ہمیشہ عمل کے لیے حاصل کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت موسی(ع) اپنے عالم دوست سے کہتے ہیں:
مما علمت رشداً
مجھے ایسا علم سکھائیے جو راہِ مقصد میں میرے لیے مفید ہو ۔
یعنی میں علم برائے علم نہیں چاہتا بلکہ حصول مقصد کے لیے علم حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔
(د) کاموں میں جلد بازی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بہت سے امور کے لیے مناسب موقع کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے:
الامور مرھونة باوقاتھا
امور اپنے وقت کے مرہونِ منت ہوتے ہیں ۔
خصوصاً زیادہ اہم مسائل میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔ اسی بناپر اس عالم نے اپنے کاموں کے اسرار حضرت موسیٰ(ع) سے مناسب وقت پر بیان کیے ۔
(ھ)چیزوں اور واقعات کا ظاہری چہرہ بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی ۔ یہ ایک اہم سبق ہے کہ جو ہم اس داستان سے سیکھتے ہیں ۔ اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اپنی زندگی میں پیش آنے والے ناگوار واقعات کے بارے میں ہمیں جلدبازی سے فیصلے نہیں کرنا چاہیے ۔ کتنے ایسے واقعات ہیں کہ جو ہمیں ناپسند ہوتے ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے لیے الله کا لطف خفی تھے ۔ اسی بات کے بارے میں قرآن حکیم ایک جگہ کہتا ہے:
<عَسی اٴَنْ تَکْرَھُوا شَیْئًا وَھُوَ خَیْرٌ لَکُمْ وَعَسیٰ اٴَنْ تُحِبُّوا شَیْئًا وَھُوَ شَرٌّ لَکُمْ وَاللهُ یَعْلَمُ وَاٴَنْتُمْ لَاتَعْلَمُون
ہوسکتا ہے ایک چیز تمھیں ناپسند ہو حالانکہ وہ تمھارے فائدے میں ہو اور ممکن ہے ایک چیز تمھیں پسند ہو اور وہ تہارے لیے مضر ہو اور خدا جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔(بقرہ۔۲۱۶)
اس حقیقت کی طرف توجہ کے سبب انسان ناگوار واقعات و حوادث پر فوراً مایوس نہیں ہوتا ۔ اس سلسلے میں ایک جاذبِ نظر حدیث امام صادق علیہ السلام سے منقول نظر سے گزرتی ہے ۔امام(ع) نے فرزند زراہ(1)سے فرمایا:اپنے باپ سے میرا سلام کہہ کریہ کہنا: بعض محفلوں میں جو تیری برائی بیان کرتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دشمن اس بات کی نگرانی کرتے ہیں کہ ہم کس شخص سے اظہار محبت کرتے ہیں تاکہ اسے اس محبت کی وجہ سے تکلیف پہنچائیں کہ جو ہم اس سے رکھتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر ہم کسی کی مذمت کرتے ہیں تو وہ اس کی تعریف کرتے ہیں ۔ بعض اوقات اگر میں تیری عدم موجودگی میں تیری برائی کرتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تو لوگوں میں ہماری ولایت و محبت کے حوالے سے مشہور ہوچکا ہے ۔ اسی بناء پر ہمارے مخالفین تیری مذمت کرتے ہیں ۔میں چاہتا ہوں کہ تجھ پر عیب لگاؤں تا کہ تجھ سے ان کا شر دور ہو ۔ جیسا کہ الله موسیٰ(ع) کے دوست عالم کی زبانی فرماتا ہے:
اٴَمَّا السَّفِینَةُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِینَ یَعْمَلُونَ فِی الْبَحْرِ فَاٴَرَدْتُ اٴَنْ اٴَعِیبَھَا وَکَانَ وَرَائَھُمْ مَلِکٌ یَاٴْخُذُ کُلَّ سَفِینَةٍ غَصْبًا ---
”کشتی کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ چند مسکینوں کی ملکیت تھی وہ اس سے دریا میں کام کرتے تھے ۔ میں نے اس میں اس لیے عیب اور نقص ڈال دیا کہ ایک بادشاہ ان کے پیچھے تھا اور وہ سب کشتیوں کو زبر دستی ہتھیار تھا“۔
اس مثال کو اچھی طرح سمجھ لے لیکن خدا کی قسم تو لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے چاہے وہ زندہ ہیں یا فوت ہوگئے ہیں ۔ تو اس موجزان دریا میں بہترین کشتی ہے اور ظالم غاصب بادشاہ تیرے پیچھے ہے جس کی بڑی گہری نظر ہے کہ بحرِ ہدایت میں سے کونسی صحیح و سالم کشتیاں گزرتی ہیں تاکہ انھیں غصب کر لے ۔ تم پر الله کی رحمت ہو زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔(2)
(و) اعتراض کے ساتھ ساتھ حقیقتوں کا اعتراف۔ اس داستان کا ایک اور ہے ۔ حضرت موسیٰ(ع) نے تین بارنہ چاہتے ہوئے بھی اپنے عالم دوست سے کیے گئے عہد کو نظر انداز کردیا اور باوجود اس کے اس استاد کی جدائی انھیں سخت ناگوار تھی ہم اس تلخ حقیقت کے سامنے انھوں نے ہٹ دھری سے کام نہیں لیاء اور ان کے اقدام کو حق تسلیم کیا ۔ ان سے بڑی محبت اور خلوص کے عالم میں جدا ہوئے اپنے کام میں لگ گئے جبکہ اس دوستی اور رفاقت کے مختصر سے عرصے میں انھوں نے حقیقت کے عظیم خزانے جمع کر لیے تھے ۔
انسان کو نہیں چاہیے کہ آخر عمر تک اپنی آزمائش میں لگا رہے اور ایسے مستقل کے لیے اپنی زنذگی مو تجربہ گاہ نہ بنالے کہ جو ہرگز نہیں آئے گا ۔ جب انسان کسی ایک چیز کو چند مرتبہ آزمالے تو پھر اس کے نتیجے کے سامنے سر جھکادے ۔
(ز) ماں باپ کے ایمان کا اولاد کے لیے اثر بھی اس داستان کا ایک اہم سبق ہے ۔ حضرت خضر(ع) نے ایک نیک اور صالح باپ کی وجہ سے اس کی اولا کی اس قدر حمایت اپنے ذمہ لے لی کہ جس قدر ہوسکتی ۔ یعنی اولاد اپنے باپ کے ایمان باپ اور امانت کی وجہ سے سعادت مند ہوسکتی ہے اوراس کی نیکی فاہدہ اس کی اولاد کو پہنچ سکتا ہے ۔ چند ایک روایات میں ہم کہ وہم مرد صالح ان یتیموں کا باپ نہیں تھا بلکہ ان کے دور کے اجداد میں شمار ہوتا تھا(جی ہاں! عمل صالح کی تاثیر اس قدر ہے ۔)(3)
اس کے صالح ہونے کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے اپنی اولاد کے لیے معنویت کے خزانے اور حکیمانہ پند نصائح بطور یادگار چھوڑے ۔
(ح) اس داستان کا ایک سبق یہ ہے کہ ماں باپ کو تکلیف پہنچانے سے عمر کم ہوجاتی ہے ۔ جب ایسی اولاد موت کی مستحق ہے کہ جس نے آئندہ ماں باپ کو تکلیف پہنچاناہے ان کے مقابلے میں سرکشی اور کفران اختیار کرنا ہے یا نہیں راہِ خدا سے منحرف کرنا ہے ۔ تو پھر اس اولاد کی کیفیت بارگاہ الٰہی میں کیا ہوگی کہ جو اس وقت مشغول گناہ ہے ۔
اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے کہ عمر کی کمی اور ترک صلہ رحمی (خصوصاً ماں باپ کو تکلیف پہنچانے) کے درمیان قریبی رشتہ ہے ۔ ان میں کچھ روایات کا ذکر ہم اسی جلد میں سورہٴ بنی اسرائیل کی آیت ۲۳ کے ذیل میں آئے ہیں ۔
(ط) اس داستان کا ایک درس یہ ہے کہ لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے ۔ بسا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص ہمارے بارے میں نیکی کرتا ہے چونکہ ہم باطن کار سے آگاہ نہیں ہوتے اس لیے اُسے دشمن خیال کرتے ہیں اور اس پر بر ہم ہوتے ہیں ۔ خصوصاً ہم ان چیزوں کے بارے میں کم صبر اور بے حوصلہ ہوتے ہیں جنھیں نہیں جانتے ۔ البتہ یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان ایسے امور کے بارے میں بے صبر ہوتا ہے کہ جن کا صرف ایک رخ اور ایک زاویہ اس کے سامنے ہوتا ہے ۔ بہر حال یہ داستان ہمیں بتاتی ہے کہ فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ تمام پہلووٴں کا مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے ۔
امیر اموٴمنین علی علیہ السلام سے بھی ایک حدیث مردی ہے، آپ(ع) نے فرمایا:
الناس اعداء ماجھلوا
انسان جس چیز کو نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں ۔(4)
اسی بناء پر لوگوں کی سطح علم و آگہی جس قدر بلند ہوگی مسائل سے ان کا برتاوٴ اتنا ہی منطقی ہوتا چلا جائے گا ۔ دوسرے لفظوں میں صبر کی بنیاد علم و آگہی ہے ۔
البتہ حضرت موسیٰ(ع) ایک لحاظ سے مضطرب اور ناراحت ہونے کا حق رکھتے تھے کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان تینوں واقعات میں شریعت کے احکام کا بہت ساحصہ خطرے میں پڑگیا ہے ۔ پہلے واقعے میں لوگوں کا مال محفوظ نہیں رہا دوسرے میں جان محفوظ نہیں رہی اور تیسرے میں مسائل حقوق خطرے سے دوچار ہوگئے ہیں ۔ دوسرے میں انھوں نے دیکھا کہ ظاہراً لوگوں کے حقوق کے ساتھ منطقی برتاوٴ نہیں ہوٴا لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ اس قدر پریشان ہوجائیں کہ اس عالم بزرگ سے باندھا عہد بھلادیں لیکن جب وہ باطن امر سے آگاہ ہوئے تو انھیں چین آگیا اور پھر کوئی اعتراض نہ کیا اور یہ بات خود اس امر کو واضح کرتی ہے کہ معاملات کے باطن سے مطلع نہ ہونا کس قدر پریشان کن ہے ۔
اس داستان سے ہم استاد اور شاگرد کے آداب بھی سیکھ سکتے ہیں ۔ اس عالم زبانی اور حضرت موسیٰ(ع) کے درمیان ہونے والی گفتگو سے استاد اور شاگرد کے درمیان آداب کے سلسلے میں بہت سے نکات سامنے آتے ہیں ۔ مثلاً:
۱۔حضرت موسی(ع) اپنے آپ کو حضرت خضر(ع)کے تابع قرار دیتے ہیں:
اتبعک
۲۔اور اس پیروی اور اتباع کے لیے حضرت موسیٰ(ع) اپنے استاد سے اجازت طلب کرتے ہیں:
ہل اتبعک
”کیا میں اپ کی اتباع کرسکتا ہوں؟“
۳۔ حضرت موسیٰ(ع) اپنی احتیاج علم اور استاد کے صاحب علم ہونے کااقرار کرتے ہیں:
علیٰ ان تعلمن
تا کہ میں آپ سے علم حاصل کرسکوں ۔
۴۔انکساری کا اظہار کرتے ہوئے حضرت موسیٰ(ع) اپنے استاد کا علم بہت زیادہ قرار دیتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ میں ت اس علم کا کچھ حصّہ حاصل کرنے حاضر ہوٴا ہوں ۔ لفظ”ممّا“اس کی دلیل ہے ۔
۵۔ علم استاد کو علم الٰہی کے عنوان سے یاد کرتے ہیں (علمت) ۔
۶۔ن سے ارشاد و ہدایت کی خواہش کرتے ہیں ( رشداً) ۔
۷۔حضرت موسیٰ(ع) در پردہ اپنے استاد سے کہتے ہیں کہ جس طرح الله نے اپنے آپ پر لطف و کرم کیا ہے اور آپ کو تعلیم دی ہے آپ بھی مجھ پر یہ لطف کیجئے:(تعلمن ممّا علمت)
۸۔”ہل اتبعک“ سے یہ حقیقت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ شاگرد کو ا ستاد کے پیچھے جانا چاہیے نہ کہ استاد کو شاگرد کے پیچھے (سوائے خاص مواقع کے) ۔
۹۔حضرت موسیٰ بہت مقام بلند اور عظیم مقام کے حامل تھے ۔ اولوالعزم نبی تھے اور صاحب رسالت و کتاب تھے اس کے باوجود انھوں نے اس انکساری کا مظاہرہ کیا ہے ۔
ان کا کردار ہر کسی سے کہہ رہا ہے کہ تو جو بھی ہے اور جو مقام بھی رکھتا ہے کسب علم و دانش کے موقع پر فروتنی اور انکساری سے کام لینا چاہیے ۔
۱۰۔حضرت موسیٰ(ع) نے استاد سے عہد کرتے وقت قطعی اور یقینی لفظ استعمال نہیں کیے بلکہ کہا:
ستجدنی انشاء الله صابراً
انشاء الله آپ مجھے صابر پائیں گے ۔
یہ الله کے حضور بھی ادب ہے اور استاد کے حضور بھی ۔ کہ خلاف ورزی ہوجائے تو استاد کی ہتک احترام نہ ہو ۔
۱۱۔ اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اس عالم زبانی نے تعلیم و تربیت کے وقت انتہائی حلم و بردباری کا مظاہرہ کیا ۔ موسیٰ جب ہیجان و اضطراب کے عالم میں اپنا عہد بھول جاتے تھے اور اعتراض کرنے لگتے تھے تو وہ بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوالیہ انداز میں صرف اتنا کہتے تھے:
میں نہ کہتا تھا کہ میرے کاموں پر تم صبر نہ کرسکوں گے ۔
1۔ زرارہ اپنے زمانے کے بزرگ فقہاء اور محدثین میں شمار ہوتے تھے انھیں امام سے بہت محبت تھی اور امام(ع) کو ان سے بہت لگاوٴ تھا ۔
2۔معجم رجال الحدیث، ج۷ ص ۲۲۷-
3۔نور الثقلین،ج ۳ ص ۲۸۹-
4۔ نہج البلاغہ، حکم ۱۷۲-