۶۔وہ خزانہ کیا تھا؟
أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ۷۹وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۸۰فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ۸۱وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ۸۲
یہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں باربرداری کا کام کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادوں کہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو غصب کرلیا کرتا تھا. اور یہ بچّہ .... اس کے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا کہ یہ بڑا ہوکر اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر ان پر سختیاں کرے گا. تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی. اور یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور ان کا باپ ایک نیک بندہ تھا تو آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں طاقت و توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں- یہ سب آپ کے پروردگار کی رحمت ہے اور میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا ہے اور یہ ان باتوں کی تاویل ہے جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ہیں.
۶۔وہ خزانہ کیا تھا؟
اس داستان کے بارے میں ایک سوال اور بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ خزانہ آخر کیا تھا جسے موسی(ع) کے عالم دوست پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے اور آخر اس باایمان شخص یعنی یتیموں کے باپ نے یہ خزانہ کیوں چھپادیا تھا؟
بعض نے کہا ہے کہ وہ خزانہ مادی پہلو رکھتا تھا ۔ بہت سی شیعہ سنّی روایات کے مطابق وہ ایک تختی تھی جس پر حکمت آمیز کلمات نقش تھے ۔ اس بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے کہ وہ حکمت آمیز کلمات کیا تھے ۔
کتاب کافی میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
یہ سونے چاندی کا خزانہ نہیں تھا ۔ یہ تو صرف ایک تختی تھی جس پر یہ چار جملے ثبت تھے:
لا الٰہ الا الله،
من ایقن بالموت لم یضحک،
و من ایقن بالحساب لم یفرح قلبہ،
و من ایقن بالقدر لم یخش الا الله
الله کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
جو موت پر یقین رکھتا ہے وہ (بے ہو دہ) نہیں ہنستا ۔
اور جسے الله کی طرف سے حساب کا یقین ہے(اور اسے جوابدہی کی فکر ہے) وہ خوش نہیں رہتا ۔
اور جسے تقدیر الٰہی کا یقین ہے وہ الله کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ۔(2)
لیکن کچھ اور روایات میں آیا ہے کہ وہ سونے کی تختی تھی ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ روایات ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں کیونکہ پہلی روایات کا مقصد یہ ہے کہ وہ در ہم و دینار کا ڈھیر نہ تھا کیونکہ”خزانہ“ سے یہی مفہوم ذہن میں آتا ہے ۔
بالفرض اگر ہم لفظ”کنز“کا ظاہری مفہوم یعنی زر وسیم کا ذخیرہ مراد لیںپھر بھی اس میں کو ئی اشکال نہیں ۔کیو نکہ ایسا خزانہ اور ذخیرہ ممنوع ہے کہ جو ایسے بہت زیادہ گراں قیمت مال پر مشتمل ہو جو طویل مدت کے لیے جمع رکھا جائے جبکہ معاشرے کو اس کی بہت ضرورت ہو لیکن اگر مال کی حفاظت کے لیے، وہ مال جو معاملہ کی گردش میں ہے، ایک دن یا چند دن زیر زمین دفن کردیا جائے(گزشتہ زمانے میں بے امنی کی وجہ سے اس کا معمول تھا یہاں تک کہ لوگوں ایک رات کے لیے بھی اپنے اموال دفن کردیتے تھے)اور بعد ازاں اس کا ملک کسی حادثے کی بناء پر دنیا سے چل بسے تو ایسا خزانہ ہرگز قابل اعتراض نہیں ہے ۔
1۔تفسیر المیزان میں در المنشور اور دیگر کتب کے حوالے سے یہ روایت درج کی گئی ہے ۔
2۔ نور الثقلین، ج ۳ ص ۲۸۷-