۵۔ موسیٰ(ع) خضر(ع) کی ملاقات کیوں گئے؟
أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ۷۹وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۸۰فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ۸۱وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ۸۲
یہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں باربرداری کا کام کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادوں کہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو غصب کرلیا کرتا تھا. اور یہ بچّہ .... اس کے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا کہ یہ بڑا ہوکر اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر ان پر سختیاں کرے گا. تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی. اور یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور ان کا باپ ایک نیک بندہ تھا تو آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں طاقت و توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں- یہ سب آپ کے پروردگار کی رحمت ہے اور میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا ہے اور یہ ان باتوں کی تاویل ہے جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ہیں.
۵۔ موسیٰ(ع) خضر(ع) کی ملاقات کیوں گئے؟
ابن ابی کعب نے ابن عباس کی وساطت سے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی ایک حدیث اس طرح نقل کی ہے:
ایک دن موسیٰ(ع) بنی اسرائیل سے خطاب کر رہے تھے ۔ کسی نے آپ سے پوچھا: روئے زمین پر سب سے زیادہ علم کون رکھتا ہے ۔ موسی(ع) نے کہا مجھے اپنے آپ سے بڑھ کر کسی کے عالم ہونے کا علم نہیں ۔ اس وقت موسی(ع) کو وحی ہوئی کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے کہ جو تجھ سے زیادہ عالم ہے ۔ اس وقت موسی(ع) نے درخواست کی کہ میں اس عالم کی زیارت کرنا چاہتا ہوں ۔ اس پر الله نے انھیں ان سے ملاقات کی راہ بتائی
ایسی ہی ایک حدیث امام صادق علیہ السلام سے بھی منقول ہے ۔(1)
یہ درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنبیہ تھی کہ اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود اپنے آپ کو افضل ترین نہ سمجھیں ۔ لیکن یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ایک اولوالزم، صاحب رسالت و شریعت شخص کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم نہیں ہونا چاہئے؟
اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ اپنی ماموریت کی قلمرو میں، نظام تشریع میں اسے سب سے بڑا عالم ہونا چاہئے اور حضرت موسیٰ(ع) اسی طرح تھے لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے نکتے میں بیان کیا ہے کہ ان کی ماموریت کی قلمرو ان کے عالم دوست کی قلمرو سے الگ تھی ۔ ان کے عالم دوست کی ماموریت کا تعلق عالم تشریع سے نہ تھا ۔ دوسرے لفظوں میں وہ عالم ایسے اسرار سے آگاہ تھے کہ جو دعوتِ نبوت کی بنیاد نہ تھے ۔اتفاقاً ایک حدیث کہ جو امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے اس میں صراحت ک ساتھ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ(ع) حضرت خضر(ع) سے زیادہ عالم شریعت میں ۔(2)
شاید اس سوال کا جواب نہ پانے کی وجہ سے اور نسیان سے مربوط سوال کا جواب نہ پانے کے سبب بعض نے ان آیات میں جس موسیٰ کا ذکر ہے اسے موسی بن عمران تسلیم نے کرنے سے انکار کردیا ہے ۔
ایک حدیث کہ جو حضرت علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس سے بھی یہ نکتہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کا دائرہ کار اور قلمرو ایک دوسرے سے مختلف تھی اور ہر ایک دوسرے سے اپنے کام میں زیادہ عالم تھا ۔(3)
اس نکتے کا ذکر بھی مناسب ہے کہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے:جس وقت کا موسی(ع) خضر(ع) سے ملے تو ایک پرندہ ان کے سامنے ظاہر ہوا ۔ اس نے پانی کا ایک قطرہ اپنی چونچ میں لیا تو حضرت موسی(ع) سے خضر(ع) نے کہا: جانتے ہوں کہ پرندہ کیا کہتا ہے:
موسی(ع) نے کہا: کیا کہتا ہے؟
خضر(ع) کہنے لگے: کہتا ہے:
ما علمک و علم موسیٰ فی الله الاکما اخذ منقاری من المائ
تیرا علم او رموسیٰ کا علم خدا کے علم کے مقابلے میں اس قطرے کی طرح ہے جو میں نے پانی سے چونچ میں لیا ہے ۔(4)
1۔ مجمع البیان، ۴ص ۴۸۱(ہم نے روایت اختصار سے درج کی ہے) ۔
2۔نور الثقلین، ج۳ص ۲۷۵-
3۔المیزان، ج۱۳ص ۳۸۳-
4۔ مجمع البیان، ج۶ص ۴۸۰-